گزشتہ مہینے سے ہر ہفتے کی دوراتیں اور تین دن لاہور میں گزارنا ضروری ہوگیا ہے۔ میں وہاں رزق کمانے جاتا ہوں تماشے دیکھنے نہیں۔ احتساب بیورو نے اگرچہ جمعہ اورہفتے کے روز حمزہ شہباز شریف کو گرفتار کرنے کے بہانے ٹی وی سکرینوں کو پُررونق بنائے رکھا۔ سوشل میڈیا پر اس قصے سے متعلق ویڈیوز بھی وائرل ہوتی رہیں۔کئی برسوں سے کاہل ہوئے میرے ذہن وجسم کو بڑھاپے کی طرف تیزی سے بڑھتی عمر نے سفر کی وجہ سے مگر نڈھال کیا ہوا تھا۔ جمائیاں لیتا رہا۔اُکتاکر ٹی وی بند کردیا۔ٹویٹر پر ہوئی بحث کو دیکھنے کی جانب بھی طبیعت مائل نہ ہوئی۔ زندگی کے بیشتر برس مسلط رہی رپورٹر والی جبلت نے ایک لمحے کو بھی مجبور نہ کیا کہ کسی نہ کسی طرح ’’جائے واردات‘‘ پر پہنچ کر نیب بمقابلہ حمزہ شریف والا ’’دنگل‘‘ اپنی آنکھوں سے دیکھا جائے۔ہوٹل کے کمروں میں اکیلے بیٹھنے سے وحشت ہوتی ہے۔ فون جیب میں رکھ کر دھابوں کو ڈھونڈتا رہا ۔ کڑک چائے طلب کی تو جوتے پالش کرنے والے آگئے۔ ان میں سے ایک کو چپل چمکانے کو دے دی۔ لوگوں سے گفتگو کے مواقع ڈھونڈتا رہا۔ ٹی وی سکرینوں پر لگی رونق اور ٹویٹر پر جاری مباحثوں کے مقابلے میں اجنبیوں سے بے ساختہ ہوئی گفتگو نے انسانوں سے براہ راست کمیونی کیشن کے لطف کی اہمیت کو اجاگر کردیا۔عوامی رحجانات کو سمجھنے کے لئے سروے وغیرہ کے ذریعے تحقیق کرنے والے رائے عامہ کو جانچنے کے لئے لوگوں کی عمر،پیشے اور ماہانہ آمدنی کے اعتبار سے اپنے Sampleمیں Clustersبناتے ہیں۔ میں نے نصابی اصولوں کے مطابق ایسے Clustersطے کرنے کی صلاحیت حاصل نہیں کی۔ محض رپورٹروں والی جبلت پرتکیہ کرتے ہوئے انفرادی حیثیت میں چند Clustersبنالیتا ہوں۔لاہور میرا آبائی شہر ہے۔اسے چھوڑ کر اسلام آباد آئے تین سے زائد دہائیاں گزرچکی ہیں۔ لاہور میں نواز شریف کے ’’ووٹ بینک‘‘ کو مگر خوب جانتا ہوں۔ اس کا سہارالیتے ہوئے اپنے تئیں ایسے کلسٹرز شناخت کرلئے جو 1985ء سے نواز شریف کو ووٹ دیتے چلے آرہے ہیں۔ میں نے خاص طورپر ان Clustersپر توجہ دی جن کا تعلق بارہ دروازوں والے لاہور یا اس شہر کی نسبتاََ غیر خوش حال بستیوں سے ہے۔ ان کی اکثریت کا شمار نچلے متوسط طبقے سے ہے۔ ٹی وی ٹاک شوز ایسے لوگ اب بھی اشتیاق سے دیکھتے ہیں۔ٹویٹر سے مگر آشنا نہیں۔ فیس بک کو اپنے سیاسی خیالات کے اظہار کے لئے استعمال نہیں کرتے۔انہیں غیر سیاسی تصاویر یا وڈیوز سے زیادہ دلچسپی ہے۔ان مخصوص کلسٹرز سے گفتگو کے بعد دریافت یہ ہوا کہ اسلام آباد بیٹھا میں شہباز شریف کے جس Top Downاور Bureaucrat Drivenماڈل آف گڈگورننس کا مسلسل نقاد رہا ہوں وہ مذکورہ کلسٹرز میں کافی مقبول ہے۔ لاہور کے ’’پسماندہ‘‘ یا غریب تصورہوتے ہوئے محلوں میں اکثریت کو اس ماڈل کی یادستاتی ہے۔کئی لوگوں نے گلہ کیا کہ شہباز شریف کے بعد جو وزیر اعلیٰ آئے ہیں وہ لاہور کو ’’صاف‘‘ رکھنے میں ناکام رہے ہیں۔کئی جگہوں پر گند کے ڈھیر جمع ہونا شروع ہوگئے ہیں۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ لاہور ’’لاوارث‘‘ ہوگیا ہے۔میرے منتخب شدہ Clustersمیں شہباز شریف کی ’’گورننس‘‘ کے لئے موجودہ ستائش کے ادراک کے تناظر میں سطحی انداز میں سوچتے ہوئے یہ طے کیا جاسکتا تھا کہ ان کے فرزند اور سیاسی وارث -حمزہ شہباز شریف-کی نیب کی بدولت آئی مشکلات نے ایسے لوگوں کو پریشان کردیا ہوگا۔ دلوں کو ذرا احتیاط سے لیکن کریدا تو حیران کن انکشاف یہ ہوا کہ متوقع ’’ہمدردی‘‘ موجود نہیں تھی۔ان لوگوں کی اکثریت کو مریم نواز شریف کی ’’تنہائی‘‘ یاد آرہی تھی۔ لاہور سے مخصوص طنزیہ انداز میں کئی ایک نے وہ ضمنی انتخاب بھی یاد کیا جس میں محترمہ کلثوم نواز شریف صاحبہ اپنے شوہر کی چھوڑی ہوئی نشست سے قومی اسمبلی کے لئے منتخب ہونے کے لئے کھڑی ہوئی تھیں۔ حمزہ شہباز شریف ان کی انتخابی مہم کے دوران متحرک نظر نہیں آئے۔بیگم صاحبہ کو بھی علاج کی خاطر اس حلقے سے دور رہنا پڑا۔ اس ضمنی انتخاب کو یاد کرتے ہوئے میرے منتخب شدہ Clusters’’اب بھگتو‘‘ والا رویہ اختیار کرتے نظر آئے۔ یہ رویہ اختیار کرتے ہوئے بھی اگرچہ میرے منتخب شدہ کلسٹرز بارہا اعتراف کرتے رہے کہ حمزہ شہباز شریف نے کم از کم لاہور کے حلقوں میں ’’بہت کام کیا ہے‘‘۔ نواز شریف کے ووٹ بینک سے سب سے جاندار تعلق انہوں نے ہی استوار کیا۔مجھ جیسے ریٹائرڈرپورٹر عمرکے آخری حصے میں کافی Cynicalہوجایا کرتے ہیں۔بسااوقات یہ رویہ تقریباََ سفاک بھی ہوجاتا ہے۔ ’’اب بھگتو‘‘ والے رویے کا حمزہ شہباز شریف کی نواز شریف کے ووٹ بینک سے Connectivity کا تقابل کرتے ہوئے میں کئی لوگوں کو لاہوری پھکڑ پن سے کام لیتے ہوئے یہ بتانے کے لئے استعمال کرتا رہا کہ ان کے رویوں میں میرے دوست سہیل وڑائچ کا مشہور کیا ’’کھلاتضاد‘‘ درحقیقت اس امر کا اظہار ہے کہ وہ ’’جائے واردات‘‘ پہنچ کر شہباز شریف کے سیاسی وارث کو نیب کے ہاتھوں گرفتاری سے بچانے کو تیار نہیں۔ اپنی بے عملی کے جواز ڈھونڈرہے ہیں۔میری بدکلامی کو خوش دلی سے برداشت کیا گیا۔ ’’میرے‘‘ لاہور کی یہ فراخدلی ہی مجھے اس شہر کو بھولنے نہیں دیتی۔ جہاں بھی رہوں میرے دل میں لاہور آباد رہتا ہے۔جمعہ اور ہفتے کے دن لاہور میں اپنے منتخب شدہ کلسٹرز سے گفتگو کے بعد مگر کسی زمانے میں ضرورت سے زیا دہ متحرک رہے سیاسی رپورٹر کو یہ احساس بھی ہوا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (نون) میں نام نہاد ’’نواز شریف لائن‘‘ اور شہباز شریف کا شدت سے اپنایا Pragmatismزیادہ دیر تک بیک وقت موجود نہیں رہ سکتے۔ ان دونوں رویوں میں سے کسی ایک کو ہر صورت اس جماعت کا حتمی یا Dominant بیانیہ ہونا پڑے گا۔ کونسا رویہ بالآخر Prevail کرے گا میرے لئے فی الوقت طے کرنا اگرچہ بہت مشکل ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ