افغانستان کے صوبہ غزنی کے ایک قصبے ‘‘ہجویر‘‘ سے سید علی لاہور آئے تو یہ شہر ہمیشہ کے لئے ان کا ہوگیا۔ آج بھی ’’داتا کی نگری‘‘ کہلاتا ہے۔ اسی شہر سے جب یہ خبر نما افواہیں سننے کو ملتی ہیں کہ وہاں مقیم پشتون نوجوانوں کو افغانستان سے آئے ممکنہ تخریب کار سمجھ کر تھانوں میں ذلت آمیز سوالوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے تو دل کانپ اُٹھتا ہے۔ بے بسی میں ہاتھ صرف یہ دُعا مانگنے کو اُٹھ جاتے ہیں کہ کاش سوشل میڈیا کے ذریعے اس ضمن میں جو کہانیاں پھیلائی جا رہی ہیں، وہ غلط اور بے بنیاد ہوں۔
پنجاب بھر میں روٹی روزگار کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے پھیلے پشتو بولنے والوں کو بحیثیتِ مجموعی شک وشبے سے دیکھا جارہا ہے یا نہیں۔ اس سوال کا جواب ٹھوس حوالوں سے ہمارے ہمہ وقت مستعد رہنے کے دعوے دار میڈیا نے ڈھونڈنے کا تردد ہی نہیں کیا۔ اس کے Celebrity Anchors کو بنیادی فکر یہ لاحق ہے کہ سپریم کورٹ پانامہ کے حوالے سے نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر برقرار رہنے کا اہل قرار دے گی یا نہیں۔
راولپنڈی کی لال حویلی میں بیٹھے ایک بقراط کے پاس ہر سوال کا جواب موجود ہوتا ہے۔ ہمارے سٹار اینکرز یکے بعد دیگرے ان سے رجوع فرما رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے ججوں نے اپنا ذہن بنا لیا ہے یا نہیں۔ مجھے اس کے بارے میں بالکل خبر نہیں۔ بقراطِ لال حویلی کا مگر یہ دعویٰ ہے کہ پانامہ کیس کی سماعت کرنے والے ایک معزز جج کا تعلق راولپنڈی کے آریہ محلے سے ہے۔ یہ ’’اطلاع‘‘ دینے کے بعد وہ اپنی ذات سے مختص انداز کے ساتھ پنجابی والی’’یاویاں مارنا‘‘ یعنی بے پرکی اُڑانا شروع ہوجاتے ہیں۔عاجزانہ مسکراہٹوں کے ساتھ حیرت سے آنکھیں پھیلائے ہمارے اینکر خواتین وحضرات یاوہ گوئی کرتے اس بقراط کی فراست کے سامنے بچھے چلے جاتے ہیں۔ ان سے Tell More کا تقاضہ کرتے ہیں اور بقراطِ عصر فارمیشن کمانڈرز کے GHQ میں ہوئے ایک اجلاس کی ’’اندرونی کہانیاں‘‘ بیان کرنا شروع ہوجاتے ہیں۔ ان سے کوئی یہ معلوم کرنے کی جرأت ہی نہیں دکھاتا کہ ’’حساس اداروں‘‘ کے خفیہ ٹھہرائے اجلاسوں میں ہوئی باتیں ان تک کیسے پہنچ جاتی ہیں۔ ’’لال حویلی لیکس‘‘ کے سہولت کاروں کا پتہ چلانے کے لئے بھی جو ہمیشہ عسکری قیادت کو سیاستدانوں سے اُکتائے ہوئے بیان کرتی ہیں کوئی کمیشن کیوں قائم نہیں کیا جا رہا۔
پنجاب میں مقیم پشتونوں کے بارے میں حقائق جاننے کی فکر سے بے نیاز ریگولر میڈیا کے مقابلے میں سوشل میڈیا اس مسئلے کو اُٹھائے چلا جا رہا ہے۔ محترمہ بشریٰ گوہر اور افراسیاب خٹک نے جب اس ضمن میں دہائی مچانا شروع کی تو لوگوں کی اکثریت نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ یہ دونوں کٹر قوم پرست سمجھے جاتے ہیں۔ان کے دعوے کو لہذا انگریزی محاورے والے Pinch of Salt کے ساتھ لینا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اتوار کے دن سے مگر اس مسئلے کو سوات سے تحریک انصاف کی ٹکٹ پر منتخب ہوئے مراد سعید نے سینہ پھلا کر اُٹھانا شروع کر دیا۔ ایک جماعت کے لندن میں جلاوطن بیٹھے بانی کی طرح مراد سعید نے بھی مختلف اقساط میں تیار کی وڈیوز کے ذریعے اپنا پیغام سوشل میڈیا پر پھیلانا شروع کردیا ہے۔
مراد سعید نے 2013ء کے انتخابات کے ذریعے منتخب ہوئی قومی اسمبلی کا سب سے کم عمر رکن ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ حقیقت اس کے برعکس ثابت ہوئی۔ بعدازاں کچھ ایسی کہانیاں بھی پھیلیں جنہوں نے مراد سعید کو حیران کن تیز رفتاری کے ساتھ اعلیٰ تعلیم کی ڈگری کے حصول کے تمام مراحل سے گزرتے ہوئے بیان کیا۔ عمران خان اپنے اس نوجوان ایم این اے کی دلیری اور بے باکی کو مگر بہت پسند کرتے ہیں۔ تحریک انصاف کے بارے میں بدکلامی کرنے والے خواتین و حضرات کا مکو ٹھپنے کے لئے اکثر انہیں عمران خان کی خاص ہدایت پر مامور کیا جاتا ہے۔
عمران خان کے چہیتے مراد سعید نے سوشل میڈیا پر پھیلی وڈیوز کے ذریعے بڑی شدت کے ساتھ یہ دعویٰ کیا ہے کہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے براہِ راست حکم کی وجہ سے پنجاب پولیس لاہور اور دیگر شہروں کی ’’پٹھان بستیوں‘‘ میں مقیم نوجوانوں کو بغیر کسی معقول وجہ کے ٹرکوں میں لاد کر تھانوں میں لے جاتی ہے۔ وہاں انہیں تذلیل کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
میرے پاس مراد سعید کے دعوے کو غلط ثابت کرنے والے حقائق موجود نہیں ہیں۔سوشل میڈیا پر پھیلی ان کی وڈیوز دیکھ کر لیکن مجھے سوات کے وہ سینکڑوں رہائشی یاد آ گئے جنہیں آج سے کئی برس پہلے ہوئے ایک آپریشن کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔ مجھے ہرگز خبر نہیں کہ مراد سعید نے کبھی یہ معلوم کرنے کی ضرورت محسوس کی یا نہیں کہ ان گرفتار لوگوں کا انجام کیا ہوا۔ جو لوگ ابھی تک اپنے گھروں کو نہیں لوٹے وہ ہرگز پنجاب پولیس کی تحویل میں نہیں ہیں۔ قومی اسمبلی کا ایک معزز رکن ہوتے ہوئے مراد سعید کے پاس ان کے بارے میں حقائق جاننے کے تمام اختیارات اور فورم موجود ہیں۔ سوات کا یہ ’’عوامی نمائندہ‘‘ مگر مجھے اس سلسلے میں کبھی متحرک نظر نہیں آیا۔ اپنے حلقے کے حقائق سے بے نیاز یہ شخص جب محض پنجاب انتظامیہ پر پشتونوں کے ساتھ برے سلوک کا الزام لگائے تو دل دکھتا ہے۔
تحریک انصاف نے 2013ء کے انتخابات کے دوران پنجاب سے بھی بے تحاشہ ووٹ لئے تھے۔ اس جماعت کے ایک بڑے رہ نما میرے بھائی اور دوست جناب شفقت محمود لاہور سے قومی اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوئے ہیں۔ کل وقتی سیاست کی طرف آنے سے پہلے میرے بھائی شفقت ایک بااثر DMG افسر رہے ہیں۔ ان کے شہر میں اگر پشتون نوجوانوں کو بے بنیاد وجوہات کی بنا پر ٹرکوں میں لاد کر ذلت آمیز سوالات کا نشانہ بنایا جا رہا ہے تو وہ اس بارے میں خاموش کیوں ہیں۔
عمران خان خود بھی لاہور کے زمان پارک سے اُٹھ کر قومی اور آفاقی اُفق کے ایک نمایاں Star بنے ہیں۔ پنجاب نے انہیں حکومت بنانے کے قابل ووٹ نہیں دئیے۔ 2013ء کے انتخابات میں لیکن خیبر پختون خواہ والوں نے انہیں والہانہ محبت سے نوازا تھا۔ اسی کی وجہ سے تحریک انصاف ان دنوں اس صوبے میں برسرِاقتدار ہے۔پنجاب کے بڑے شہروں میں اگر پشتون بولنے والوں کو واقعتاً Racial Profiling کا نشانہ بنایا جا رہا ہے تو یہ عمران خان کی سیاسی، اخلاقی اور تاریخی ذمہ داری ہے کہ وہ بذاتِ خود لاہور میں بیٹھ کر اس معاملے کے بارے میں ٹھوس حقائق اکٹھا کریں۔ حقائق کی بنیاد پر یہ عیاں ہو جائے کہ پنجاب میں مقیم پشتون واقعتاً Racial Profiling کا نشانہ بن رہے ہیں تو اس کے خلاف آواز بلند کرنا عمران خان پر لازم ہے۔ اپنی ذمہ داری کو مراد سعید کے سپرد کرتے ہوئے تحریک انصاف کے رہ نما اپنے ساتھ ہی نہیں اس ملک کے مستقبل کے ساتھ بھی زیادتی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
(بشکریہ:روزنامہ نوائے وقت)