پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان عمران خان نے پاکستان سپر لیگ سیزن ٹو کا فائنل میچ قذافی سٹیڈیم لاہور میں کروانے کو پاگل پن قرار دیا ہے۔ اس مخالفت کی وجہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ اس میچ کے دوران اگر کوئی سانحہ رونما ہو جاتا ہے تو ملک میں بین الاقوامی کرکٹ دس سال کےلئے نہیں ہو سکے گی۔ ان کا یہ بھی موقف ہے کہ شہر کو قلعہ بند کرکے اور انتہائی سکیورٹی کے ماحول میں ایسا میچ کروانے کا کوئی فائدہ بھی نہیں ہوگا جو بنیادی طور پر انٹرنیشنل بھی نہیں ہے۔ یہ بحث غیر ضروری ہے کہ عمران خان کا یہ تبصرہ کرکٹ ٹیموں کی سکیورٹی کے حوالے سے حقیقی تشویش پر مبنی ہے یا وہ موجودہ حکومت اور حکمران پارٹی کی سیاسی مخالفت کی وجہ سے ضروری سمجھتے ہیں کہ اس کے ہر اچھے برے فیصلے کی مخالفت کی جائے۔ خاص طور سے اس مخالفانہ بیان کی روشنی میں یہ بات بھی سامنے آئے گی کہ پی ایس ایل کے چیئرمین نجم سیٹھی ہیں جن پر وہ انتخابات میں دھاندلی کروانے کے سنگین الزامات لگاتے رہے ہیں اور اب عدالت میں نجم سیٹھی کی طرف سے دائر ہتک عزت کے مقدمہ کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان سب عوامل کو نظر انداز کرتے ہوئے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا بنیادی اصول یہ ہے کہ اس سے ہار ماننے سے انکار کیا جائے۔ دہشت گرد معاشرہ میں معمول کی زندگی کو متاثر کرنا چاہتے ہیں۔ عوام اور حکومت کی کامیابی اسی میں ہے کہ وہ ان دھمکیوں کو مسترد کرتے ہوئے معمول کے مطابق زندگی بسر کریں۔ اس اصول کی روشنی میں پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں کروانا ضروری ہے۔ پنجاب حکومت نے فروری کے سانحات کے بعد لاہور میں پی ایس ایل کا فائنل کروانے کے طے شدہ پروگرام کے باوجود بے یقینی کا اظہار کرکے اور اس کا باقاعدہ اعلان کرنے میں غیر ضروری تاخیر سے کام لے کر عام لوگوں کے خوف میں اضافہ کیا تھا۔ اس لحاظ سے لاہور میں فائنل کروانے کا فیصلہ قدرے تاخیر سے سامنے آیا ہے اور ان چند دنوں کے دوران عام لوگ یہ محسوس کرنے میں حق بجانب تھے کہ دہشت گرد دوبارہ منظم ہو چکے ہیں اور حکومت ان کے سامنے مجبور دکھائی دے رہی تھی۔ اس تاخیر کی وجہ سے عوام کے احساسات اور دہشت گردوں کی ’’حوصلہ افزائی‘‘ کے حوالے سے جو نقصان ہوا ہے، اس کی تلافی تو ممکن نہیں ہے لیکن بالآخر کم از کم یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ ملک کی حکومت اور عوام دہشت گردوں سے ہار ماننے کےلئے تیار نہیں ہیں۔ یہ صرف کرکٹ کو ملک میں واپس لانے اور ایک ایونٹ کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ اقدام دہشت گردی کے خلاف نفسیاتی جنگ میں اہم قدم ثابت ہو سکتا ہے۔ پنجاب حکومت نے فائنل کروانے کی اجازت دے کر تاخیر سے ہی سہی یہ واضح پیغام دیا ہے کہ دہشت گرد ہمارے معمولات کو متاثر کرنے اور زندگی کو درہم برہم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ اس لحاظ سے اس فیصلہ کی توصیف اور تائید بے حد ضروری ہے۔ اسی پس منظر میں عمران خان کا بیان حیران کن اور مایوس کرنے والا ہے۔ وہ یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ دہشت گرد کسی وقت بھی حملہ کر سکتے ہیں اور اگر میچ کے دوران کوئی سانحہ ہو گیا تو پاکستان شدید مشکلات کا شکار ہو سکتا ہے۔ یہ طرز عمل اور سوچ کا انداز ملک میں تخریب کاری کی سرپرستی کرنے والی قوتوں کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہے۔ اسی لئے اسے مسترد کرنا اور یہ کہنا ضروری ہے کہ دھماکوں کے اندیشوں اور چھپ کر وار کرنے والے بزدل حملہ آور کے سامنے کم ہمتی کا اظہار نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستانی قوم نے گزشتہ 15 برس کے دوران 50 ہزار سے زائد لوگوں کی قربانی دینے کے باوجود دہشت گردوں کے سامنے ہتھیار پھینکنے سے انکار کیا ہے۔ اسی لئے ملک کی فوج بھی پرعزم ہو کر چھپے ہوئے دشمن کے ٹھکانوں پر حملے کرنے اور انہیں تباہ کرنے کےلئے تیار ہوئی ہے۔ اس جنگ میں مکمل کامیابی حاصل نہ ہونے کی متعدد وجوہ موجود ہیں جن پر بحث بھی کی جا سکتی ہے اور حکومت پر تنقید بھی ہونی چاہئے۔ لیکن اگر حکومت حوصلہ مندی کا پیغام دینے اور دہشت گردوں کے ارادوں کو ناکام بنانے کی بات کرتی ہے تو اسے ’پاگل پن‘ قرار دینا کسی طور درست نہیں ہو سکتا۔ عمران خان کو اپنے اس تبصرہ پر غور کرتے ہوئے یہ اقرار کرنا چاہئے کہ جوش خطابت میں انہوں نے غلط موقف اختیار کیا ہے اور اس کے اظہار کےلئے غلط الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے۔
بعض حلقوں کی جانب سے سامنے آنے والی اس رائے سے اتفاق بھی ممکن نہیں ہے کہ ملک میں دہشت گرد حملے سی پیک کو ناکام بنانے یا پی ایس ایل کا فائنل روکنے کےلئے کئے گئے تھے۔ دہشت گردی کے متعدد عوامل ہیں اور ان کا بنیادی مقصد معاشرے میں خوف و ہراس پیدا کرکے اداروں، حکومت اور عوام کے درمیان بداعتمادی کا ماحول پیدا کرنا ہوتا ہے تاکہ ریاست کی مشینری تباہ و برباد ہو اور تخریب کاروں کو معاشرے پر قبضہ کرنے کا موقع مل سکے۔ ان ارادوں کو ناکام بنانے کےلئے استقامت اور حوصلہ سے تعاون اور ہم آہنگی میں اضافہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ دہشت گردی کے حوالے سے اختلافات کی بجائے اتفاق پیدا کرنے اور یکجہتی کا اظہار کرنے کی اشد ضروری ہے۔ خود عمران خان امن و امان کی دگرگوں صورتحال میں اپنے ہی دعووں کے مطابق لاکھوں لوگوں کو دھرنوں اور ریلیوں کےلئے جمع کرتے رہتے ہیں۔ ان کا یہ اقدام بھی دہشت گردوں کے مقابلے میں معمولات کو ترک نہ کرنے کا اعلان ہی ہوتا ہے۔ حیرت ہے کہ وہی شخص اب اپنے ہی فعل سے متضاد موقف اختیار کرکے پوری قوم کو گمراہ کرنے کا سبب بن رہا ہے۔
(بشکریہ:کاروان)