2010ء میں پاکستان کے بالر محمد عامر اپنی وکیل کے ہمراہ ویسٹ منسٹر کے میجسٹریٹ کے سامنے پیش ہونے جا رہے ہیں
جب ریس کورس میں لاکھوں پاؤنڈ کا جوا کھیلا جارہا ہو تو گھوڑے کو نہ تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر قدم آگے جانے سے اس کے مالک اور حامیوں کو کتنا منافع متوقع ہے اور نہ ہی مخالفین کے نقصان کا اندازہ ۔ مگر جب 2010ء کے دورہ انگلستان میں پاکستان کے محمد عامر کا ایک قدم آگے بڑھا تو بدنام زمانہ کرکٹر کو اپنے مالکان اور حامیوں کے منافع کا تو بخوبی علم تھا مگر اسے ہر گز یہ احساس ہی نہ تھا کہ ایک نو بال نے پاکستانی قوم کو اخلاقی طور پر دیوالیہ کر دیا ہے۔
کبھی ہمیں گمان ہوتا تھا کہ لاہور اور لندن میں ایک حرف سے بڑھ کر مماثلت نہیں۔ مگر اب سٹہ بازی لاہور اور لندن میں نئے روابط کی داغ بیل ڈال رہی ہے۔ دونوں شہروں میں جوا خانے برس ہا برس سے قائم ہیں اور گھوڑوں کی دوڑ میں سب ہی اپنی اپنی پسند کے جانور پر شرط لگاتے ہیں۔ مت بھولیں کہ برطانوی معاشرے میں گھوڑے پر شرط لگانا آج بھی مردانگی کی علامت جانا جاتا ہے۔
اگر یہ سب اتنا ہی سادہ ہے تو شور کس بات پر؟
کرکٹ کی طرح جوا کھیلنے کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔ کھیلوں اور کھلاڑیوں پر شرطیں لگانے کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ کھیل مگر کھلاڑیوں کا جوا کھیلنے والے افراد سے تعلق نامناسب سمجھا جاتا ہے چہ جایئکہ براہ راست ایجنٹ سے ڈیل کی جائے۔
اسی لئے جیسے ہی پی ایس ایل میں کھلاڑیوں پر سپاٹ فکسنگ کی خبریں آیئں اور ساتھ ہی کرکٹ بورڈ کی جانب سے سخت ترین رد عمل سامنے آیا تو گمان ہوا کہ اس مرتبہ یہ عفریت پاکستان کرکٹ بورڈ کی طے کردہ حدود سے تجاوز کر رہا ہے۔ ایک اور بات جو زیادہ پریشان کن تھی وہ یہ تھی کہ نئے آنے والے کھلاڑی نہ تو محمد عامر کی طرح معصوم ہیں اور نہ ہی ان کو ورغلانے کی کوشش کی گئی پھر بھی انہوں نےغیر متعلقہ افراد سے ملنے کا جرم کیا۔
معاف کیجئے یہ نیا تنازعہ ہر گز اتنا پیچیدہ نہیں ہوتا اگر پی سی بی نے ماضی میں پاکستان کی نیک نامی کے لئے کوئی واضح اقدامات اٹھائے ہوتے۔ نہ صرف یہ کہ پاکستان کرکٹ کی موجودہ انتظامیہ نے بد عنوان کرکٹرز کے لئے نرم گوشہ رکھا بلکہ بین الاقوامی میچوں میں پاکستان کے لئے ہزیمت کا سبب بننے والے بدنام زمانہ کھلاڑیوں کی وکالت کے لئے بھرپور اثر رسوخ استعمال کیا۔ اگر ایک طرف کرکٹ بورڈ کے سربراہ، محمد عامر کو بے قصور ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں تو دوسری طرف چائے کی پیالی میں اتنا ابال کیوں؟
پاکستان کرکٹ کی بدقسمتی یہ ہے کہ با کردار کھلاڑی پی سی بی کے ساتھ کام کرنے کو تیار نہیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ 1995ء میں پاکستان کے دو کھلاڑیوں باسط علی اور راشد لطیف نے زمبابوے کے دورہ سے اس لئے انکار کر دیا تھا کہ بااثر کھلاڑی پیسوں کے عوض میچ ہار جاتے تھے۔بعد ازاں راشد لطیف نے 2015ء میں سلیکٹر کے عہدے پر کام کرنے سے بھی معذوری ظاہر کی۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے اکثر کھلاڑی اس بات پر متفق ہیں کہ لاہور کی بااثر شخصیات سٹہ بازوں کے مخصوص گروپ سے گہرے تعلقات کے باعث پاکستان کی بدنامی کا سبب ہیں۔ ان خدشات کو اس لئے بھی تقویت ملتی ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے گزشتہ برسوں میں داغدار ماضی کے حامل کرکٹرز کو اہم عہدوں پر فائز کرنے کے لئے پاکستان کی عدلیہ کے واضح احکامات کو بھی نظر اندازکیا۔
کیا پاکستان کرکٹ عالمی سطح پر اپنے وقار کا اضافہ کر پائے گی؟
پاکستان میں کرکٹ کے شائقین کے لئے اس سوال کا جواب کوئی حوصلہ افزا نہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کرکٹ بورڈ میں اہم ذمہ داریاں سنبھالنے کے لئے ملک میں باوقار کرکٹرز کا فقدان ہے۔ اگرچہ کرکٹ بورڈ بھٹکے ہوئے کھلاڑیوں کو راہ راست پر لانے کی کوششوں میں مصروف ہے، مگر مبصرین کا خیال ہے کہ اس وقت پاکستان کرکٹ کو فتوحات سے زیادہ اپنی ساکھ کی بحالی پر توجہ دینا ہوگی۔