محترم سعید احمد صدیقی کے انتقال سے کرائم رپورٹنگ کے ایک عہد کا خاتمہ ہو گیا۔مجھ سمیت سبھی کے ساتھ ان کا محبت بھرا تعلق تھا،مسیح اللہ خان کی ان کے ساتھ طویل رفاقت رہی، انہوں نے جس محبت اور تفصیل کے ساتھ یہ مضمون لکھا گویا ہم سب کا قرض چکا دیا۔ یہ اس عہد کی کہانی ہے جب صحافت معتبر تھی۔صحافی اور ایڈیٹر اس زمانے میں کسی کے مخبر یا سہولت کار نہیںہوتے تھے۔ مسیح اللہ صاحب درست کہا آپ نے اب ایسے صحافی کہاں(رضی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچانک پتہ چلا کہ سعید احمد صدیقی انتقال کر گئے۔ ڈیڑھ ماہ پہلے اے پی پی کے سلمان رضا کے ساتھ شیش محل کالونی میں ان کے گھر گیا، کافی دنوں سے سعید احمد صدیقی پریس کلب نہیں آ رہے تھے، شام ڈھلے ہم ان کی کوٹھی پر پہنچے، کافی دیر گیٹ پر کھڑے، آوازیں لگاتے رہے، گیٹ بیل پر بھی انگلی رکھی لیکن کسی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔ پھر پتہ چلا ان کے گھر سے کبھی کوئی جواب آتا ہی نہیں۔ وہ کراچی میں اپنی صاحبزادی کے پاس چلے گئے ہیں جو آغا خان ہسپتال میں ڈاکٹر ہیں، ان کو کان کا عارضہ کئی برسوں سے لاحق تھا ۔ پھر پتہ چلا ملتان واپس بھی آ گئے ہیں اور لاہور چلے گئے، پھر معلوم ہوا کہ لاہور سے بھی واپس ملتان آ گئے ہیں، کان کی حالت قدرے ٹھیک ہو گئی اور سن لیتے ہیں۔ وہ سال ہا سال سے ذیباطیس کے مرض سے جنگ لڑتے آ رہے تھے، کئی بار کام کے دوران بے ہوش ہو کر گرے بھی تھے۔ سلمان رضا سے پوچھا کہ ان کے گھر سے کبھی کوئی جواب آتا بھی ہے، انہوں نے کہا کہ خود سعید صدیقی ہمراہ لے جائیں تو ٹھیک ورنہ دروازے بند۔ اس طرح دو مہینے گزر گئے، آناً فاناً معلوم ہوا کہ اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں، ابدالی مسجد میں بعد نماز عشاء نماز جنازہ کا اعلان ہوا، کھوج پر معلوم ہوا وہ کافی دنوں سے ہی نشتر میں داخل تھے۔ یہ بھی بتایا گیا ان کے صاحبزادوں اور برادرِ اصغر ڈاکٹر جلیل کامران نے انہیں داخل کرایا تھا۔ خبریں کے امتیاز احمد گھمن کا ان سے مسلسل رابطہ تھا، وہ نشتر میں ان کی مزاج پرسی اور عیادت کیلئے آتے جاتے رہے لیکن کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہوئی۔ بس یہی پتہ چلا کہ دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں تو میرے سامنے ایک زمانہ گھوم گیا۔
کیا وہ شاندار زمانہ تھا؟ کیا وہ شاندار لوگ تھے؟ یہ اس وقت کی بات ہے جب ڈیرہ اڈا پر آسمان سے باتیں کرتے برگد اور پیپل کے درخت ایستادہ تھے اور ان کی گھنی ٹہنیوں پر کئی قسموں کے پرندے آ کے اپنی اپنی بولیاں بولتے تھے۔ درختوں کی گھنی چھاؤں کے ساتھ دوپہر کی تپتی جلتی ہوا میں مسافروں کو ملتانیوں کی صدیوں پرانی مہمان نوازی کی نوید سنایا کرتے تھے۔ انہیں سفر کی تھکان اتارنے کیلئے اپنی چھاؤں میں سمیٹ لیتے تھے، یہاں گورنمنٹ ٹرانسپورٹ کا اڈا تھا جہاں سے شمال، جنوب، مغرب، مشرق تک دور دور بسیں چلتی تھیں، یہاں سے شہر کے لئے ڈبل ڈیکر بسیں چلتی تھیں۔ ڈیرے اڈے کو ملنے والی تمام سڑکوں پر کھوکھوں کی بہار ہوا کرتی تھی جو چوبیس گھنٹے کھلے رہتے تھے۔ پیچھے التمش روڈ پر جو ڈیرے اڈے پر آ کر مُکتی ہے ملتان کا وسیع و عریض ہوٹل ہوتا تھا، اس کا نام سٹیزن تھا، پہلو میں فرینڈز ہوٹل ہوا کرتا تھا جس کا مالک عباسی تھا، اردو بولنے والے با سلیقہ خدا ترس انسان تھے، وہاں سے کوئی خالی ہاتھ نہیں جاتا تھا۔ پہلو میں بلوچ ٹرانسپورٹ اور العباس ٹرانسپورٹ کی بسیں چلا کرتی تھیں۔ اس وقت ترقی کا یہ عالم تھا کہ جب بارش ہوتی تو ڈیڑھ ڈیڑھ فٹ کیچڑ پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی۔ اس وقت سیوریج کا تصور ہی نہیں تھا۔ البتہ بجلی وافر مقدار میں تھی، اس وقت بجلی کی یہ خانہ خراب حالت نہیں تھی۔ مغیث اے شیخ ملتان الیکٹرک کمپنی کے مالک تھے،بروقت بِل آتے تھے، کوئی شکایت نہیں ہوتی تھی، ہر کام قانون،قاعدے کے مطابق ہوا کرتے تھے۔ بجلی کی بندش کا ان دنوں تصور ہی محال تھا۔ ڈیرہ اڈا جہاں آج کل مسجد کے مینار سربلند ہیں یہاں تانگہ سٹینڈ تھا۔ رکشے بھی رکا کرتے تھے، ان کے میٹر ہوتے تھے، صلاح الدین ڈوگر چارپائی پر یہاں محفل جماتے تھے۔ ریلوے سٹیشن سے حرم گیٹ، ڈیرے اڈے سے گھنٹہ گھر تانگے چلا کرتے تھے۔ شب روز ہوٹل کا نام احمد ندیم قاسمی نے تجویز کیا تھا۔ اس کی بغل میں واقع ماورا ہوٹل کے قریب امروز کا دفتر تھا۔ اس کے ساتھ نُکر میں پاکستان پیپلز پارٹی کا زونل آفس تھا جس کی ملکیت طارق سعید کے والد گرامی ملک عبدالقیوم کے ہاتھ میں تھی۔ اس سے پہلے یہ دفتر کچہری روڈ پر سلیمی دوا خانے کے سامنے ہوتا تھا۔ عظمت واسطی روڈ پر جہاں بڑی بڑی بلڈنگیں موجود ہیں، یہاں زمین سیم میں ڈوبی رہتی تھی۔
ڈیرہ اڈا پر امروز کے دفتر کے سامنے جوار باجرہ کے کھیت ہوتے تھے۔ نواں شہر جانے والی سڑک پر بائیں ہاتھ پر فردوس ہوٹل ہوتا تھا۔ جس کے مالک ملک کریم بخش تھے، بھٹو شہید کے دوست تھے۔ یہ ان دنوں کی باتیں ہیں جب صاحبانِ علم و دانش فکر و نظر صاحبِ کردار تھے۔ شاندار لوگ تھے۔ امروز میں جناب مسعود اشعر، سید سلطان احمد، اقبال ساغر صدیقی، ایم اے شمشاد، شبیر حسن اختر، مظہر عارف، ابنِ حنیف، سعید احمد صدیقی، حنیف چودھری، ولی محمد واجد، رشید ارشد سلیمی ہوتے تھے، یہ عہد ساز اور شاندار لوگ تھے، ہر ایک اپنے آپ میں ادارہ تھا، ایک انجمن تھا، اپنی ذات میں مکمل زندگی اور مکمل کتاب تھے۔ کیا زمانہ تھا جب سعید احمد صدیقی نے ٹینک چوری کی خبر چھاپی تو ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا کہ یہ امروز نے کیا چھاپ دیا۔ سعید احمد صدیقی خبر کے معاملے میں بے لاگ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ایم ڈی اے کے بریگیڈیئر تصدق نے انہیں دفعہ 499 کے تحت گرفتار کرا دیا تھا، سعید احمد صدیقی ٹریڈ یونین سرگرمیوں میں بھی بھرپور حصہ لیتے تھے۔ پی ایف یو جے کی ایگزیکٹو کونسل کے ممبر رہے، کرائم کے شعبے میں ان کا ثانی نہیں تھا۔ وہ خبر کو دیکھتے، اگر وہ بل میں گھسی ہوتی ہے تو اسے کان سے کھینچتے، مکمل کی مکمل خبر نکال لیتے۔
کیا زمانہ تھا، کیا لوگ تھے، دائیں بائیں بازو مکتبِ فکر کے چرچے تھے ۔ اتنی فکری خلیج ہونے کے باوجود باہمی احترام اور باہمی تعلق پر حرف نہیں آتا تھا۔ کہیں ایشیاء سبز ہے، کہیں ایشیاء سرخ ہے کے نعروں سے فضائیں گونجتی رہتی تھیں۔ترقی پسند اور رجعت پسند کی اصطلاحات عام تھیں۔ اس تقسیم میں ٹریڈ یونینز اور طلباء تنظیمیں بھی شامل تھیں۔ اخبارات کے دفاتر میں کام کرنے والے صحافی بھی اس تقسیم کی سرپرستی کرتے تھے۔ اخبارات بطورِ خاص نیشنل پریس ٹرسٹ کے زیر انتظام چلنے والے پروگریسو پیپرز لمیٹڈ کے اخبارات، امروز، پاکستان ٹائمز ترقی پسندوں کے حامی اخبارات میں نمایاں تھے لیکن دائیں بازو کی خبروں ردی کی ٹوکری کی نذر نہیں کرتے تھے۔ امروز ملتان میں رائٹسٹوں (دائیں بازو) کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی لیکن سب کا ایک اللہ، ایک رسول اور ایک قرآن پر کامل ایمان تھا۔ نعت گوئی میں بھی آگے آگے تھے۔ اس کے باوجود دائیں بازو کی خبریں بھی کسی بغض اور کینہ کے بغیر اپنی جگہ خوب پاتی تھیں۔ امروز ملتان میں مسعود اشعر، اقبال ساغر صدیقی، سید سلطان احمد، ایم اے شمشاد، ولی محمد واجد، شبیر حسن اختر، مظہر عارف، حشمت وفا، حنیف چودھری، رشید ارشد سلیمی، نوشابہ نرگس اپنے اپنے شعبوں میں کامل انسان تھے، علاقائی اور بین الاقوامی اتار چڑھاؤ پر سب کی یکساں توجہ رہتی تھی۔ رواداری کا یہ عالم تھا کہ جماعت اسلامی کے عقیل صدیقی، دوسری جماعتوں کے خورشید عباس گردیزی، خواجہ خدا بخش، شیخ عبدالحمید، شیخ محمد یعقوب، بابو فیروز انصاری، عطااللہ ملک، اسلامی جمعیت طلباء اور ترقی پسند طلبہ تنظیموں کے عہدیداروں دائیں بائیں بازو کی مزدور تنظیموں کے اراکین کا آنا جانا لگا رہتا تھا، باہمی اختلافات بھی ہوتے تھے، ملتان میں ورکرز یونین آرٹ ایڈیٹر مرزا فخر الدین چلاتے تھے۔ پھر یہ یونین تقسیم ہو گئی، ایمپلائز یونین بھی بن گئی، جس کا ریفرنڈم ہوتا تھا لیکن یہاں فکری اختلاف کے باوجود اخبار کی ترقی میں سب یکجان تھے۔ سعید احمد صدیقی سٹاف رپورٹر تھے۔ 1968ء میں پروف ریڈر تھے پھر کراچی چلے گئے جہاں تعلیم مکمل کی، پھر ملتان آ کر سٹاف رپورٹر بن گئے۔ سب ٹھیک چلتا رہا۔ 5 جولائی کے فوجی اقدام نے فکری اختلاف کو دشمنی میں بدل ڈالا، سعید احمد صدیقی اس قیامت خیز دور میں بھی صحافتی اصولوں پر کاربند رہے، انہیں کسی کی پرواہ نہیں ہوتی تھی۔ آغا شاہی No war Packt کے سلسلے میں بھارت گئے، سعید احمد صدیقی ان کے وفد میں شامل تھے، زیڈ اے سلہری، میر خلیل الرحمن جیسے جید صحافی بھی ہمراہ تھے۔ انہوں نے ان دنوں بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کا بھی انٹرویو کیا تھا جو پاکستان بھر کے اخبارات میں صفحہ اول پر شائع ہوا تھا۔ الیکٹرانک میڈیا میں صرف سرکاری شعبے کا پی ٹی وی تھا یا ریڈیو پاکستان تھا۔
سعید احمد صدیقی لگاتار گفتگو کرنے کے ماہر تھے، ان کی گفتگو میں کوئی روزن، کوئی دراڑ، کوئی سوراخ نہیں ہوتا تھا۔ سننے والا جہاں سے داخل ہو کر گفتگو کا حصہ بن سکے۔ ان کی ہمہ گیر گفتگو اپنے اندر علم و دانش اور فکر کے کئی پہلو لئے ہوتی تھی۔ خبر کے معاملے میں ان کا طریقہ یہی تھا کہ وہ خبر کو پالتے تھے، غالباً ٹاٹے پور کا وقوعہ ہے، وہاں سے نامہ نگار نے خبر فائل کی تھی کہ ایک گھر میں جنوں نے حملہ کر کے دو بچوں کو مار ڈالا ہے، خبر لگ گئی، پھر ہفتہ بھر بعد اُسی نامہ نگار نے خبر فائل کی کہ اُسی گھر میں جنات نے دو مزید بچوں کو قتل کر دیا۔ سعید احمد صدیقی اس خبر کی کھوج میں نکل کھڑے ہوئے تو پتہ یہ چلا کہ بچوں کی ماں کے ایک شخص سے مراسم تھے، اس شخص نے عورت کو آمادہ کیا پہلے بچوں سے جان چھڑاؤ پھر شادی کرتے ہیں۔ طویل منصوبہ بندی کے بعد انہوں نے بچوں کو مار ڈالا، اس عورت کا نام پٹھانی تھا۔ سعید احمدصدیقی کی تفتیشی رپورٹنگ نے پولیس کو تحقیقات کرنے پر مجبور کر دیا، پھر پٹھانی گرفتار کر لی گئی۔ سب بات کھل گئی۔ انہوں نے وسیب کے نامی گرامی ڈاکو محمد خان سے بھی جیل میں انٹرویو کیا تھا۔ گورنر امیر محمد خان محمد خان کے ذاتی دشمن بتائے جاتے تھے۔ انٹرویو کے دوران معلوم ہوا محمد خان ڈاکو غریب پرور تھا، چھوٹے قد کا انسان تھا مگر اندر سے مختلف شخص نکلا۔ ضیائی دور میں سعید احمد صدیقی کی خدمات لائق تحسین رہیں، اب ایسے شاندار صحافی کہاں؟
فیس بک کمینٹ