دُنیا کے ہر صحافی کی طرح مجھے بھی ’’غیرجانبداری‘‘ کا ڈھونگ رچانا پڑتا ہے۔ ذہن میں جو بات ہوتی ہے کھل کر بیان نہیں کر پاتا۔ زندگی کو مشکلات سے بچانے کے لئے احتیاط ضروری ہے۔ محتاط رہنا اس وقت مزید ضروری ہو جاتا ہے جب آپ کسی خاندان کے سربراہ بھی ہوں۔ آپ کو بجلی اور گیس کا بل ادا کرنا ہو۔ بچوں کی فیس دینی ہو۔ ان کی ضروریات کا خیال رکھنا ہو۔
صحافی سے مگرتوقع یہ کی جاتی ہے کہ وہ ہمیشہ سچ بولے۔ بات برحق اور برملا کرے اور ایسا کرتے ہوئے لگی لپٹی سے گریز کرے۔ ہم صحافیوں کی اکثریت کا المیہ یہ رہا ہے کہ وہ اپنے بارے میں موجود ان توقعات کو پورا کرنے کی لگن میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔انتہائی دیانت داری سے یہ اعتراف نہیں کرتے کہ وہ کسی’’مشن‘‘ پر فائزرضا کار نہیں ہیں۔ان کے پاس محض لکھنے اور بولنے کا ہنر ہے۔اس ہنر کو کسی نہ کسی دکان پر رکھنا پڑتا ہے۔اخبارات کے صفحات اور ٹی وی سکرینیں وہ دکانیں ہیں جہاں ہمارا ہنر بکنے کو رکھا جاتا ہے۔ ہمارا سودا بکتا رہے تو باقاعدہ آمدنی کی صورت پیدا ہوجاتی ہے جو بجلی اور گیس کے بل اور بچوں کی فیسیں ادا کرنے کی استطاعت فراہم کرتی ہے۔
سچ ہمارا ’’سودا‘‘ ہرگز نہیں ہے۔ قارئین وناظرین مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ان گروہوں کے اپنے مخصوص نظریات اور تعصبات ہوتے ہیں۔ہمیں ان گروہوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرتے ہوئے ان کے ذہنوں میں موجود ترجیحات وتعصبات کو اپنے ہنر کے ذریعے بالکل درست ثابت کرنا ہوتا ہے۔ اپنی پسند کے گروہ میں مقبولیت حاصل کرنے کی خاطر ہم ان کے مخالف گروہ سے منسلک نمایاں افراد کی بھد اُڑاتے ہیں۔ ان کے دلائل کو بودا ثابت کرتے ہیں۔
سب سے آسان کام یہ بھی ہے کہ ہم اپنے ہنر کو محتسب کی طرح استعمال کرتے ہوئے اپنی پسند کے گروہ کے مخالفین کو کسی نہ کسی طرح دینی حوالوں سے ’’گمراہ‘‘ ثابت کریں۔ قیامِ پاکستان کے روزِ اوّل ہی سے بھارت جیسے طاقتور ہمسائے نے ہمارے وجود کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ اس وجود کو برقرار رکھنے کی فکر نے لکھاریوں کو یہ آسانی بھی فراہم کردی کہ وہ اپنے مخالفین کو کسی نہ کسی طرح دشمن کا ایجنٹ ثابت کریں۔
بھارت کے ممکنہ ایجنٹوں کی نشاندہی اور ان سے نجات حاصل کرنے کا فریضہ ابھی پوری طرح مکمل نہیں ہو پایا تھا تو ’’مسلم اُمہ‘‘ کے خلاف سازشیں شروع ہوگئیں۔ یہ باور کرلیا گیا کہ امریکہ اور دیگر مغربی ریاستوں میں رائے اور فیصلہ سازی کے تمام ذرائع پر صیہونیوں نے قبضہ کر لیا ہے۔ وہ مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے مسلمانوں میں نفاق پھیلانے میں مصروف رہتے ہیں۔ ہر اچھے مسلمان اور پاکستانی صحافی کا لہٰذا یہ فرض ہے کہ وہ مسلسل ان سازشوں کا سراغ لگاکر انہیں بے نقاب کرتا رہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس بات کو بھی یقینی بنائے کہ دشمن قوتوں کے ’’آلہ کار‘‘ لکھاریوں کی سوچ ہمارے لوگوں کو گمراہ نہ کرپائے۔
ہمارے ہاں لکھنے والوں کے لئے جو ’’فرائض‘‘ طے کر دیئے گئے ہیں میں خود کو انہیں نبھانے کے قابل نہیں سمجھتا تھا۔ اپنی اس خامی کو پوری طرح جانتے ہوئے میں نے سوچ سمجھ کر اپنے صحافتی کیریئر کے بیشتر سالوں میں صرف رپورٹنگ پر انحصار کیا۔ خبریں ڈھونڈنا مگر ایک جان لیوا دھندا ہے۔ ’’خبر‘‘ ویسے بھی آدمی نے کتے کو کاٹ لیا جیسی انہونی کو بیان کرتی ہے۔ اشرافیہ کی اکثریت اگرچہ ایسی انہونیوں کا ارتکاب کرتی رہتی ہے۔لوگوں کو مگر اپنی اس عادت کے بارے میں بے خبر رکھنا چاہتی ہے۔ ’’خبر‘‘ کی تلاش نے لہٰذا ہمیشہ مشکل میں گرفتار رکھا۔ بالآخر دِق ہوکر فیصلہ کرلیا کہ خبروں کا سودا بیچنے کی بجائے کالم لکھ کر بھاشن دیئے جائیں۔
یہ کالم لکھتے ہوئے پانچ سے زیادہ برس گزرگئے ہیں۔ ابھی تک مگر یہ طے نہیں کرپایا ہوں کہ میرے قارئین کون ہیں۔ عمران خان کے سوشل میڈیا والوں نے اگرچہ تواتر سے سمجھایا ہے کہ میں نواز شریف اور ان کی جماعت کا چہیتا ہوں۔اپنی چاہت کا اظہار وہ مجھے باقاعدگی سے نوٹوں بھرے لفافے بھیجتے ہوئے کر دیتے ہیں۔ پنجاب کے خادم اعلیٰ تک مگر یہ اطلاع نہیں پہنچ پائی۔ چودھری نثار علی خان بھی اس ’’چاہت‘‘ کو دریافت نہیں کر پائے ہیں۔
رہے نواز شریف تو وہ تیسری بار وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد صحافیوں سے قطعاً بے نیاز ہو چکے ہیں۔ عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد کھانا کھاتے ہی اپنے بیڈ روم میں تشریف لے جاتے ہیں جہاں ذمہ دار ذرائع سے مجھے خبر ملی ہے کہ کوئی ٹیلی وژن سیٹ موجود نہیں ہے۔ عموماً شب دس بجے کے بعد ان کے بیڈ روم کی بتیاں بھی گل ہو چکی ہوتی ہیں۔ علی الصبح اُٹھتے ہیں۔ نمازِ فجر ادا کرتے ہیں۔ اخبارات کا ایک بھاری بھرکم پلندہ ان کو مل جاتا ہے۔ یہ پلندہ مگر اکثر اپنی جگہ ہی رکھا پایا گیا ہے۔
سنا ہے کچھ لوگ ہیں جو ان کے لئے اخبارات دیکھ کر چند کالموں کے کچھ حصوں کو خطِ کشیدہ سے نمایاں کرکے ان کے روبرو رکھ دیتے ہیں۔ وزیراعظم ان میں سے ایک یا دو کو اُٹھاکر اپنی جیب میں رکھ لیتے ہیں۔جب سے یہ کالم لکھنا شروع کیا ہے صرف ایک بار ان کے ایک وزیر نے مجھے اس کالم کا تراشہ آج سے دو سال قبل ایک تقریب میں دکھایا تھا۔ اس وزیر کا دعویٰ تھا کہ اس کالم کی چند سطروں کے نیچے وزیراعظم نے اپنے ہاتھ سے لکیریں لگائی تھیں اور متعلقہ وزیر کو غالباً ’’یہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘ والا پیغام دینے کے لئے بھیج دیا تھا۔ اس ایک واقعے کے علاوہ میرے ساتھ وزیر اعظم کی جانب سے ’’نہ سلام ہے نہ پیغام ہے‘‘والا معاملہ ہی رہا ہے۔
آصف علی زرداری مجھے ا پنا خیر خواہ سمجھتے ہیں۔ دوستی کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔کبھی مل جائیں تو شفقت اور محبت کا دریا بہادیتے ہیں۔ چند مہینوں سے مگر ان سے بھی کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ عمران خان کہیں بھی ملیں لاہوریوں والی جپھی ڈال کر ملتے ہیں۔ بے تکلفی میں بھی احترام کی جھلک برقرار کھتے ہیں۔
ان نمایاں سیاستدانوں کے متوازی ہوا کرتے ہیں ’’ذرائع‘‘۔ ان میں سے کسی ایک نے بھی گزشتہ 15 سالوں کے دوران میرے ساتھ کبھی رابطہ نہیں کیا۔ شاید ’’ذرائع‘‘مجھے پنجابی والا ’’کسی جوگا‘‘ نہیں سمجھتے ہوں گے۔ میں ان کی بے اعتنائی سے مگر مطمئن ہوں کہ ’’ذرائع‘‘ سے نہ دوستی اچھی نہ دشمنی۔
مسلسل 5سال سے یہ کالم لکھنے کے باوجود اپنے ’’قارئین‘‘ نہ ڈھونڈ پانا میری بہت بڑی ناکامی ہے۔ انہیں دریافت کرنا ضروری ہوگیا ہے تاکہ میں ان کے دلوں میں موجود تعصبات کو مزید ہوا دے کر آخری عمر میں اپنے کچھ مداح پیدا کرسکوں جو مجھے کسی فنکشن میں دیکھیں تو میرے ساتھ سیلفیاں کھچوائیں۔ مجھے تسلسل کے ساتھ ای میل پیغامات بھجیں۔ میں ایسے مداحین کا بھی بڑی شدت سے متلاشی ہوں جو برسوں سے امریکہ یا آسٹریلیا جیسے ملکوں میں مقیم ہوں۔میری چاہت میں اس حد تک مبتلا ہوں کہ مجھے ٹکٹ بھیج کر اپنے ہاں بلوائیں۔ اپنے سارے کام چھوڑ کر مجھے دیگر دوستوں سے ملوائیں۔میں ان کے سامنے اپنے گرانقدر خیالات کا اظہار کروں اور وطن واپسی پر تحائف سے لدا ہوا آئوں۔ اپنے دل میں پلتی اس خواہش کے اظہار کے بعد مگر منیر نیازی کا ’’ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں‘‘ والا مصرعہ یاد آگیا ہے۔واقعتاً بہت دیر ہوچکی ہے۔
فیس بک کمینٹ