عورت ہونے کی کیا میں نے ہے سزا پائی
میں جو بیٹی بہن اور ماں کا روپ ہوں
جو سچ پوچھو تو گود سے گور تک
ان رشتوں کی ٹھنڈی چھاﺅں اور
خود کے لیے بس کڑی دھوپ ہوں
جنم لیتے ہی ماں کو میں نے سوچوں میں تھا الجھایا
کہ میرا ہی وجود اس کے لئے تاریکیاں لایا
کبھی تو بھائی نے مجھ کو حقارت سے تھا ٹھکرایا
کبھی خود باپ نے مجھ کو کہیں پر زندہ دفنایا
کبھی وقت نے چھین لی مجھ سے مرے بچپن کی رعنائی
مرے معصوم ننھے ہاتھوں کو
کھلونے کی جگہ روشِ دوراں سکھلائی
مری روشن چمکتی آنکھوں کو زمانے کی تیرگی دکھلائی
مری تقدیر پر دل کھول کر روتی تھی شہنائی
کبھی تو قتل کر ڈالے حنا کے نام پر ارماں
کبھی ڈولی بٹھا کر ناخداﺅں نے کیا قرباں
خطا کے نام پر دیوار میں چنوا دیا مجھ کو
وفا کے نام پر کچا گھڑا پکڑا دیا مجھ کو
میں جو تتلی کی طرح ہوا کے دوش پہ اڑتی
اپنے آنچل میں تاروں کے حسین رنگ بھرتی
تمہیں اب کیا کہوں کہ
مجھے دنیا نے کیسے نیلام کیا
ناحق میرے خوابوں کو بدنام کیا
تمہیں اب کیا کہوں کہ
اس جہاں میں میرے کتنے ہی منصف بنائے گئے
فرائض کے سبھی حساب مجھ سے چکائے گئے
جتنے بھی تھے آگہی کے باب مجھ سے چھپائے گئے
شہر کی مقتل میں مرے خواب لٹائے گئے
یوں زندگی موت کے پیرہن میں مرے پاس آئی
احساس کے قاتل لوگوں نے
مری روح کی کرچیوں سے
دنیا کی مقتل سجائی
مت پوچھ مجھ سے مری نارسائی
ایک عورت ہونے کی کیا میں نے ہے سزا پائی
فیس بک کمینٹ