عمران خان صاحب نے خیبرپختونخواہ اسمبلی کے 20اراکین کے نام طشت ازبام کردئیے ہیں۔ ان لوگوں پر سینٹ کے انتخابات کے دوران اپنے ووٹ بیچنے کا الزام ہے۔ خود کو موصول ہوئے شوکاز نوٹسز کے جواب میں اب وہ جو بھی کہتے رہیں بدنام تو ہوگئے۔ تحریک انصاف نے مگران کے نام دے کر تاریخ بنادی۔ میڈیا میں موجود عمران خان کے شدید ترین ناقدین بھی Naming and Shamingکے اس اقدام کو سراہنے پر مجبور ہوگئے۔
رنگ میں بھنگ ڈالنے کے لئے کچھ دل جلے افراد نے اگرچہ تحریک انصاف کے چودھری سرور کو بھی یاد کرنا شروع کردیا۔ موصوف اپنی جماعت کی پنجاب اسمبلی میں موجود اراکین کی اجتماعی قوت سے تقریباََ دُگنے نمبر جمع کرکے سینٹ پہنچ گئے تھے۔ سوال یہ اٹھایا جارہا ہے کہ عمران خان صاحب اس سینیٹر سے جوپنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے تگڑے امیدار بھی سمجھے جاتے ہیں نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ کے ان اراکین کے نام معلوم کریں جنہو ں نے نظر بظاہر اپنے ووٹ ”بیچے“۔
چودھری صاحب کے مداحوں کا اگرچہ اصرار ہے کہ برطانوی پارلیمان کے اس سابق رکن نے اپنی مقناطیسی کشش سے نواز کیمپ میں سے باغی اکٹھے کئے۔ ان لوگوں نے اس امیدپر انہیں سینیٹر بنوایا ہوگاکہ چودھری صاحب آئندہ انتخابات میں انہیں پی ٹی آئی کے ٹکٹ دلواکر پنجاب اسمبلی میں واپس لے آئیں گے۔ ذاتی کشش اور نقدرقوم کے ذریعے پارٹی وفاداری تبدیل کروانے میں فرق ملحوظ رکھنا ہوگا۔ کچھ وفاداریاں فقط سیاسی تقاضوں کی وجہ سے تبدیل ہوتی ہیں۔ جمہوری عمل میں اسے معمول سمجھا جانا چاہیے۔ ووٹ بیچنا قطعاََ مختلف عمل ہے۔ اس کی مذمت ضروری ہے۔
سیاست کو میں بدنصیب مگر اقتدار کا کھیل ہی سمجھتا ہوں۔ اس کھیل میں ”اخلاقی برتری“ تلاش کرنا مجھ خبطی کے لئے ممکن ہی نہیں۔ سیاست کو اس کھیل کے بندھے ٹکے قواعد کے مطابق ہی سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ان قواعد کو ذہن میں رکھیں تو یاد آتاہے کہ 2013کے انتخابات کے ذریعے تحریک انصاف خیبرپختون خواہ میں واحد اکثریتی جماعت بن کر ابھری تھی۔ صوبائی حکومت بنانے کے لئے اسے دیگر جماعتوں اور چند آزاد امیدواروں سے رجوع کرنا پڑا۔ خود سے وابستہ 20اراکین کے نام لے کر انہیں شرمندہ کرنے کے بعد اب یہ جماعتKPKاسمبلی میں اکثریتی جماعت نہیں رہی۔ پرویز خٹک کو وزارتِ اعلیٰ کے منصب پر قائم رہنے کے لئے جو نمبردرکار ہیں وہ ہرگز ان کے پاس نہیں رہے۔ اپوزیشن جماعتیں ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرکے اس حقیقت کو لوگوں کے سامنے لانے کا شاید تردد نہ کریں کیونکہ صوبائی اسمبلی کی پانچ سالہ آئینی مدت ختم ہونے میں صرف 6ہفتے رہ گئے ہیں۔ اپوزیشن پرویز خٹک کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کئے بغیر بھی لیکن گورنر کو مجبور کرسکتی ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ کو ایوان میں اپنی اکثریت دکھانے پر مجبور کرے۔
اس متوقع اور ممکنہ Moveکو ذہن میں رکھتے ہوئے پرویز خٹک ازخود صوبائی اسمبلی کی تحلیل کی Adviceبھی دے سکتے ہیں۔ انہیں یہ قدم اٹھانے سے پہلے مگر اپنی اسمبلی کے قائد حزب اختلاف سے عبوری وزیر اعظم کے نام پر اتفاق حاصل کرنے کی خاطر رجوع کرنا ہوگا۔ وہ یہ تردد کئے بغیر ہی اسمبلی کو تحلیل کرنے کی ایڈوائس دے دیں تو عبوری وزیر اعلیٰ کون چنے گا؟۔نظر بظاہر الیکشن کمیشن۔ اس ادارے کا دیا نام بھی لیکن متنازعہ ہوسکتا ہے اور حتمی فیصلے کے لئے شاید بالآخر سپریم کورٹ سے رجوع کرنا پڑے۔
کوئی وزیر اعلیٰ ازخود اپنی اسمبلی کی تحلیل کی ایڈوائس کرے تو آئینی مدت مکمل نہ ہونے کی وجہ سے اس اسمبلی کے آئندہ انتخابات 60دنوں کے بجائے 90دنوں میں کروانے کا جواز مل جاتا ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ نئے انتخابات کے لئے 60کے بجائے 90دن مانگنے کے لئے 20اراکین سے لاتعلقی کا اعلان تو نہیں ہوا؟
اس سے بھی اہم تر بات یہ ہے کہ پرویز خٹک موجودہ اسمبلی کی تحلیل سے پہلے اس ایوان سے آئندہ سال کا بجٹ پاس کروانے کے قابل نہیں رہے۔ بدھ کے روز ہوئے اعلان سے قبل ہی وہ یہ عندیہ دیناشروع ہوگئے تھے کہ وہ اپنے صوبے کے لئے نئے انتخابات سے قبل پورے سال کا بجٹ تیار کرنے اور اسے پاس کروانے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ ان کی خواہش ہوگی کہ صرف اتنا بندوبست ہوجائے کہ نئی صوبائی حکومت کے قیام سے قبل چند ماہ کے مالی معاملات چلانے کے لئے رقوم مختص کردی جائیں۔ یہ رقوم مختص کرنے کے لئے صوبائی اسمبلی کی معاونت ہی سے کوئی انتظام ضروری ہے۔
پرویز خٹک نے اپنے صوبے کے لئے آئندہ سال کا بجٹ نہ بنایا۔ اسے بناکر بھی اسمبلی سے منظور نہ کرواپائے۔ پورے سال کے بجٹ کے بجائے کم از کم آئندہ چار ماہ کے لئے سرکاری محکموں اور کاموں کے لئے رقوم کو باقاعدہ طورپر مختص نہ کر پا ئے تو ان کے صوبے میں فقط مالی ہی نہیں آئینی بحران پیدا ہوجائے گا ۔ اس بحران کو حل کئے بغیر نئے انتخابات کروانا ممکن نہیں ہوگا۔
ممکنہ آئینی اور مالی بحران مگر KPKتک ہی محدود نہیں رہے گا۔ اس کی وجہ سے کم از کم قومی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ طے کرنے میں بھی دشواریاں پیش آسکتی ہیں۔شاید ان دشواریوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہی عمران خان صاحب کے سیاسی گرو اور راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر نے تواتر کے ساتھ یہ دعویٰ کرنا شروع کردیا ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ا نتخابات جولائی 2018کے کسی روز نہیں بلکہ نومبر2018کے کسی دن ہوں گے۔ انتخابات کو بروقت کروانے کے بجائے انہیں چند مہینوں تک ملتوی کروانے کے ٹھوس جواز لہذاخیبرپختونخواہ اسمبلی کے 20اراکین کو ”تاریخی“ طورپر ”بے نقاب“ کرنے کے ذریعے فراہم کردئیے گئے ہیں۔ بہت سوچ سمجھ کرچلائی ایکMoveہے۔ اس کی وجہ سے وقتی واہ واہ ہوگئی۔ عمران خان صاحب نے ”بکاؤ“ لوگوں کو بے نقاب کرنے کا دلیرانہ فیصلہ کردیا۔ اس فیصلے کی بدولت کچھ اور قوتوں نے کیا فائدہ اٹھانے کا سوچ رکھا ہے اس کی جانب نگاہ ڈالنے کا ہمارے پاس وقت نہیں۔
(بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ