سعودی عرب سے نکل کر امریکہ میں بیٹھا صحافی ایک حوالے سے خوش نصیب تھا کہ وہاں کے طاقت ور ترین اخباروں میں سے ایک -واشنگٹن پوسٹ- کے لئے کبھی کبھار کالم لکھا کرتا تھا۔ اس اخبار تک اس کی رسائی نہ ہوتی تو ترکی میں ہوئی اس کی ”گمشدگی“ کی ہمیں خبر تک نہ ہوتی۔
حیران کردینے والی حقیقت یہ بھی ہے کہ اس صحافی کی پراسرار گمشدگی کی دہائی ترک میڈیا میں وہاں کی حکومت نے ”ذرائع“ کے ذریعے مچائی۔ بذاتہی اس حکومت نے بے تحاشہ اخباروں کو ”غداری“ کے الزامات لگاکر بند کیا۔ ناقد ٹیلی وژن چینلوں کو سلطان اردوان کے امیر دوستوں نے خرید لیا۔ مالکان تبدیل ہوئے تو ان چینلوں سے ناپسندیدہ افراد فارغ کردئیے گئے۔ سینکڑوں کی تعداد میں اس ملک کے صحافی ابھی تک High Securityٹھہرائی جیلوں میں بند ہیں۔
جن شہروں میں پیدا ہوئے یا جہاں وہ صحافتی فرائض ادا کرنے کی خاطر کئی برسوں سے مقیم تھے یہ جیلیں وہاں سے کئی گھنٹوں کی مسافت پر واقع ہیں۔ انسانی حقوق کی بے تحاشہ تنظیمیں ترکی کو مسلسل آزاد صحافت کے ناقابل ملک ٹھہرائے ہوئے ہیں۔ اس ملک کی حکومت ہی نے مگر سعودی صحافی کی ”گمشدگی“ کا اعلان کیا۔ ”ذرائع“ سے مسلسل ایسی خبریں چلوائیں جنہوں نے اس شبے کو تقویت دی کہ سعودی صحافی جب چند دستاویزات کی تصدیق کے لئے استنبول میں موجود سعودی قونصل خانے میں گیا تو اسے وہاں بہیمانہ تشدد سے ہلاک کردیا گیا۔
”معتبر ذرائع“ سے خبر یہ بھی آئی کہ جس دن صحافی کے ساتھ یہ واردات ہوئی اس سے چند ہی گھنٹے قبل سعودی عرب سے یکے بعد دیگرے دو جہاز استنبول ایئرپورٹ پر اُترے۔ یہ جہاز کمرشل نہیں بلکہ سعودی حکومت کے استعمال میں تھے۔ ان میں سے 15کے قریب لوگ اترے اور محض چند گھنٹے استنبول میں گزارنے کے بعد اپنے وطن لوٹ گئے۔ کہانی یہ پھیلی کہ ان افراد نے سعودی صحافی کو تشدد سے ہلاک کرنے کے بعد اس کی لاش کو ٹھکانے لگانے کا بندوبست کیا اور شاید اس کی لاش کے ٹکڑے لے کر استنبول سے روانہ ہوگئے۔
بحیثیت صحافی میری تمام تر ہمدردیاں یقینا صحافی جمال خشوگی کے ساتھ ہیں۔ بہت دُکھ اس کی منگیتر-خدیجہ چنگیز“ کا وہ کالم پڑھ کر ہوا جو نیویارک ٹائمز میں چھپا ہے۔ یہ خاتون جو ایک یونیورسٹی میں PHDکی طالبہ ہے ترکی میں ہوئے ایک سیمینار کے دوران جمال سے ملی تھی۔ دونوں میں قربت بڑھی تو شادی کا فیصلہ ہوا۔ اس شادی سے قبل صحافی کے لئے ضروری تھا کہ وہ اپنے ملک کے استنبول میں موجود سفارت کاروں سے اپنی سابقہ بیوی سے طلاق کی مستند دستاویزات حاصل کرے۔ وہ بدنصیب ان کے حصول میں ”گم شدہ“ ہوگیا۔
دنیا بھر کے آزاد منش صحافیوں کے ساتھ ایسے واقعات گزشتہ کئی برسوں سے کئی ممالک میں ”معمول“ کی صورت اختیار کرچکے ہیں۔ خوف اور دہشت کی فضا کسی ایک ملک کے لئے مختص نہیں۔”عالمی ضمیر“ نامی شے کبھی اس بارے میں لیکن متفکر نہیں ہوئی۔ ”اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں“ والا سفاک رویہ اپنا لیا گیاہے۔
اس رویے کی نفی مگر ایک حوالے سے ”فرعون کے گھر“ سے ہوتی نظر ا ٓئی۔ وجہ اس کی خالصتاََ سیاسی اور نام نہاد ”قومی مفاد“ ہے۔ ترکی کے مطلق العنان صدر خود کو ”اخوان المسلمین“ جیسی تحریکوں کی متعارف کردہ روایتوں کے امین تصور کرتے ہیں۔اسی بنیاد پر وہ سعودی عرب کے مقابلے میں قطر کے ”دوست“ ہوئے جو ”مشرقِ وسطیٰ میں بدامنی پھیلاتے“ الجزیرہ ٹیلی وژن کو چلاتا ہے۔ مصر کے جنرل السیسی کے مخالف اخوان والوں کو اپنے ہاں پناہ دیتا ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات قطر کے ان ”جرائم“ سے بہت نالاں تھے۔ قطر پر انہوں نے ایران کی معاونت کا الزام بھی لگایا اور اس جرم میں اسے ”برادری باہر“ کرتے ہوئے اقتصادی اور سیاسی مقاطعہ کا فیصلہ کردیا۔
امریکی صدر ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد پہلا غیر ملکی دورہ سعودی عرب کا رکھا تھا۔وہاں کی شاہی ضیافت میں تلوار اٹھاکر رقص کیا۔ اس کا داماد شہزادہ محمد بن سلمان کا جگری ہوگیا۔ دعویٰ ہوا کہ وہ دونوں مل کر سعودی عرب ہی نہیں تمام خلیجی ممالک کو ”جدید تر“ بنائیں گے۔ اسرائیل سے عرب ممالک کے تعلقات بہتر ہوں گے۔ ایران کو قابو میں لایا جائے گا۔
ٹرمپ کے اس دورے کے بعد امریکی میڈیا میں شاہزادہ محمد بن سلمان کو MBS پکارتے ہوئے تواتر کے ساتھ ایسی کہانیاں سنائی گئیں جنہوں نے یہ تاثر اجاگر کرنے کی کوشش کی کہ کسی زمانے کے شہنشاہ ایران کی طرح سعودی شہزادہ بھی اپنے ملک کو ”روشن خیال“ بنانا چاہ رہا ہے۔ عورتوں کی آزادی کا بھرپور حامی ہے۔ سعودی عرب کو جدید صنعتی ملک بنانا چاہتا ہے۔ وہاں سینما ہال فلموں کی نمائش کے لئے کھول دئیے گئے ہیں۔پاپ سنگرز کنسرٹ کررہے ہیں۔ فٹ بال کے میچ دیکھنے سعودی اب اپنی بیویوں اور بیٹیوں سمیت آتے ہیں۔
MBSکے مقابلے میں ”سلطان اردوان“ کو امریکی میڈیا نے بدترین آمر کی صورت بناکر پیش کیا۔ ”آزاد صحافت“ کے ساتھ اس کے سفاکانہ سلوک کی تفصیلات مستقل بیان ہوتی رہیں۔ ترکی صدر نے لیکن ایک امریکی پادری کو بھی جیل میں بند کررکھا تھا۔ اس پادری کی رہائی میں دیر لگی تو امریکہ نے ترکی کی وزارتِ داخلہ کے اقتصادی مقاطعے کا اعلان کردیا۔ اس کے نتیجے میں ترکی کی کرنسی ڈالر کے مقابلے میں ارزاں ترین ہونا شروع ہوگئی۔ کئی برسوں تک معاشی اعتبار سے خوش حال اور استحکام کی علامت ہوا ترکی کسادبازاری اور بے روزگاری کے آگے بے بس ہوا نظر آیا۔
میرا اصرار ہے کہ سیاست کو Artٹھہرا کر اس کے ہنر سکھاتا میکیاولی اگر آج زندہ ہوتا تو اردوان کے گھٹنے چھو کر اسے اپنا گرومان لیتا۔ انتہائی مہارت کے ساتھ اردوان نے صحافی جمال خشوگی کی ”گمشدگی“ کے بار ے میں اپنے میڈیا کے ذریعے ایسا واویلا مچایا کہ ٹرمپ حکومت کے لئے خاموش رہنا ناممکن ہوگیا۔ سعودی عرب سے تقاضا ہوا کہ وہ جمال کی ”گمشدگی“ کے بارے میں حقائق بتائے۔ دریں اثناءترکی میں قید ہوئے امریکی پادری کو ”اچانک“ رہا کرکے امریکی میڈیا سے واہ واہ وصول کرلی گئی۔
پیر کو امریکی وزیر خارجہ جمال خشوگی کے بار ے میں ”حقائق“ جاننے سعودی عرب کے ہنگامی دورے پر روانہ ہوگیا۔ وہاں سے اطلاعات میرے یہ کالم لکھنے تک یہ آرہی ہیں کہ سعودی عرب کی حکومت یہ ”اعترافی بیان“ دے گی کہ جمال خشوگی کو استنبول سے اغواءکرکے وطن لانا مقصود تھا۔ ”آپریشن“ میں لیکن "Rogue”عناصر کے ہاتھوں ”بداحتیاطی“ ہوگئی۔ ان خطاکاروں کی نشان دہی کے بعد مناسب سزا دی جائے گی۔ معاملہ گویا رفع دفع ہوجائے گا۔ جمال چند ہی روز میں ”تاریک راہوں“ میں مارے گئے ایک اور فرد کی طرح بھلادیا جائے گا۔
اس کی موت کے سبب لیکن ترکی اور امریکہ کے باہمی تعلقات اب Resetہوجائیں گے۔ سعودی عرب بھی اردوان سے بناکر رکھنے کو مجبور ہوگا۔ MBSتیل کی پیدوار اور اس کی قیمت کے بارے میں ٹرمپ کے بنائے ایجنڈے کی تکمیل پر مجبور ہوجائے گا۔
امریکہ،سعودی عرب اور ترکی اپنے اپنے ”قومی مفادات“ کی ”بالغوں“ کی طرح نگہبانی کرتے نظر آئیں گے۔ سعودی عرب اور ترکی میں لیکن ممکنہ جمال خشوگی پیدا ہوتے رہیں گے۔ ان کا کوئی والی وارث نہیں ہوگا۔
(بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ