پاکستان اور بھارت کے درمیان تصادم اور دوریوں کا رویہ اب کرکٹ میں بھی نمایاں ہؤا ہے۔ گزشتہ روز ایشیا کپ میں دونوں ملکوں کی ٹیمیں مدمقابل تھیں لیکن ٹاس کے موقع پر پاکستان اور انڈیا کے کپتانوں نے مصافحہ نہیں کیا اور میچ ختم ہونے کے بعد بھارتی بیٹسمینوں نے بھی میدان میں موجود پاکستانی کھلاڑیوں کے ساتھ ہاتھ ملانے سے انکار کردیا۔
بعد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے بھارتی ٹیم کے کپتان سوریا کمار یادیو نے بتایا کہ ’مصافحہ نہ کرنے کا فیصلہ انڈین کرکٹ بورڈ اور حکومت کے فیصلے کے مطابق تھا‘۔ گویا کھلاڑیوں کو بورڈ اور حکومت کی طرف سے پابند کیا گیا تھا کہ وہ کسی پاکستانی کھلاڑی سے ہاتھ نہ ملائیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان تلخیاں تو کافی عرصے سے موجود ہیں لیکن مئی میں ہونے والی عسکری جھڑپوں کے بعد سے ان دوریوں میں اضافہ ہؤا ہے۔ دونوں ملکوں نے ایک دوسرے پر متعدد پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں۔ البتہ کھیل کا میدان ہی ایک ایسی جگہ تھی جہاں دونوں ملکوں کے لوگوں کے درمیان بھائی چارہ دیکھنے کو ملتا تھا۔
بھارت میں نریندر مودی کی حکومت نے کافی عرصہ سے کھیلوں کے علاوہ ثقافت کو بھی سیاسی ضروتوں کے ساتھ نتھی کردیاہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان ادیبوں اور فنکاروں کا تبادلہ بند ہوچکا ہے اور بھارتی حکومت عام طور سے اپنے کھلاڑیوں کو پاکستان کے ساتھ مقابلوں میں شریک ہونے کی اجازت نہیں دیتی۔ دونوں ملکوں کے درمیان کرکٹ میچ چونکہ خاص طور سے عوامی توجہ کا مرکز ہوتے ہیں، اس لیے حکومت نے ان میچوں کو بھی نشانہ بنایا ہے اور پاکستان اور بھارت کے درمیان طویل عرصہ سے کوئی ٹورنامنٹ نہیں ہوسکا۔ اس پس منظر میں انٹرنیشنل کرکٹ بورڈ کے بینر تلے ہونے والے بین الاقوامی مقابلوں میں ہی دونوں ملکوں کی ٹیمیں آمنے سامنے ہوتی ہیں۔
پابندیوں اور سیاسی کشیدگی کے ماحول کے باوجود پاکستان اور بھارت کے کھلاڑیوں کے درمیان دوستانہ تعلقات رہے ہیں۔ یہ جب بھی مد مقابل ہوتے ہیں تو ایک دوسرے کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں لیکن ان کے درمیان انفرادی سطح پر دوستی اور مواصلت موجود رہتی ہے۔ اس طرح شدید تر اختلافات کے باوجود امید کی ایک چھوٹی سی کرن روشن رہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح وسیع آبادی پر مشتمل یہ دونوں ممالک کبھی نہ کبھی باہمی اختلافات کا کوئی حل تلاش کرلیں گے تاکہ دونوں طرف آباد لوگوں کے درمیان میل جول کا سلسلہ شروع ہو۔ البتہ سیاسی ایجنڈے پر نفرت پھیلانے والے گروہوں کے لیے یہ صورت حال بھی ناقابل قبول ثابت ہوئی ہے۔ گزشتہ روز پاکستان اور بھارت کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان ایشیاکپ کا مقابلہ ہؤا لیکن نہ تو ٹاس کے موقع پر حسب روایت انڈین کپتان سوریا کمار یادیو نے پاکستانی کپتان سلمان علی آغا سے ہاتھ ملایا اور نہ ہی 7 وکٹوں سے پاکستان کو شکست دینے کے بعد بھارتی بلے بازوں نے میدان چھوڑتے ہوئے حسب روایت پاکستانی کھلاڑیوں سے مصافحہ کیا۔
اب پاکستان کرکٹ بورڈ نے میچ ریفری اینڈی پائیکرافٹ کے خلاف آئی سی سی سے شکایت کی ہے اور کہا کہ کہ اگر اس ریفری کو ایشیا کپ سے باہر نہ کیا گیا تو پاکستانی ٹیم ٹونامنٹ کے کسی میچ میں شریک نہیں ہوگی۔ اس ریفری پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے ٹاس کے موقع پر دونوں کپتانوں سے درخواست کی تھی کہ وہ ایک دوسرے سے ہاتھ نہ ملائیں۔ اس بارے میں کوئی وضاحت موجود نہیں ہے کہ انہیں ایسی ہدایت یا مشورہ دینے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ پائیکرافٹ کا مؤقف آئی سی سی کو جمع کرائی جانے والی رپورٹ میں ہی سامنے آسکے گا۔ البتہ بھارتی کپتان نے میچ کے بعد پریس ٹاک میں واضح کیا کہ انہوں نے اور ان کے باقی ساتھیوں کے حکومتی پالیسی کے تحت پاکستانی کھلاڑیوں سے مصافحہ کرنے سے گریز کیا۔ کوئی بھی ٹیم اپنی حکومت کے حکم سے روگردانی نہیں کرسکتی لیکن اس طرز عمل نے کرکٹ اور کھیل کے غیر جانبدارانہ ماحول میں سیاسی آلودگی ملادی ہے، جس سے دونوں ملکوں کے درمیان نفرتوں میں اضافہ ہوگا۔
انڈین کپتان سوریا کمار یادیو نے پریس کانفرنس کے دوران اپریل میں پہلگام سانحہ کا ذکر کیا اور اس دہشت گردی میں ہلاک ہونے والوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ وہ اپنی جیت کو انڈین افواج کے نام کرتے ہیں۔ کسی ٹیم کے کپتان کے لیے ایسی گفتگو نہایت نامناسب اور غیر ذمہ دارانہ تھی لیکن پوری تصویر کا مشاہدہ کیا جائے تو بھارتی کپتان کو یہ سب باتیں کرنے کی باقاعدہ ہدایت کی گئی تھی۔ یہ بھارتی حکومت کی نفرت و عناد پر مبنی پالیسی تھی جو کرکٹ کے میدان کو دوستی کے اظہار کی بجائے نفرت کے فروغ کے لیے استعمال کرنے کا سبب بنی ہے۔ عام طور سے کھیل کے معاملات میں حکومتوں کی مداخلت کو ناپسند کیا جاتا ہے اور تمام کھیلوں کی تنظیمیں، قومی کھیل تنظیموں کے انتظام میں کسی بھی حکومت کا عمل دخل قبول نہیں کرتیں۔ تاہم بھارتی کرکٹ کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ اس کا بورڈ حکومتی اشاروں پر فیصلے کرتا ہے اور آئی سی سی بھارتی بورڈ کی مالی حیثیت کی وجہ سے اس کی سرزنش کرنے میں کامیاب نہیں ہوتی۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان زبان، ثقافت، لین دین اور رسم و رواج کی کئی مشترکہ قدریں ہیں۔ ان دونوں ملکوں کے لوگ بوجوہ خود کو ایک دوسرے سے قریب محسوس کرتے ہیں لیکن اب سیاسی و مذہبی بنیادوں پر پھیلائی جانے والی انتہاپسندی کی بنیاد پر تمام تر مشترکہ اثاثہ کے باوجود دونوں ملکوں میں لوگوں کے دلوں میں نفرت و عداوت کا بیج بویا جارہا ہے۔ یہ طریقہ نہ صرف کھیلوں کے لیے افسوسناک ہے بلکہ جوہری صلاحیت سے لیس دو ملکوں کے درمیان ایسی نفرت تصادم درحقیقت جنگ جوئی کی فضا ہموار کرنے کا سبب بنے گی۔ حالانکہ پاکستان اور انڈیا کے لیڈروں کو سیاسی اختلافات کے باوجود سماجی سطح پر نفرت سے گریز کرنا چاہئے تاکہ لوگوں کے درمیان رابطوں کا سلسلہ شروع ہوسکے اور مسائل پر بات چیت کے لیے میدان ہموار ہو۔ بھارتی لیڈر ضرور اپنے حجم اور طاقت کے زعم میں فی الوقت پاکستان کی طرف سے مذاکرات کی دعوت کو نظر انداز کررہے ہیں لیکن ہر ذی شعور جانتا ہے کہ کوئی تنازعہ خواہ کتنا ہی پیچیدہ اور مشکل کیوں نہ ہو ، اسے جنگ کی بجائے صرف بات چیت سے ہی حل کیا جاسکتا ہے۔
پہلگام سانحہ پر بھارت میں جو صدمہ محسوس کیا گیا، پاکستان کےعام شہریوں کو بھی اس کا اتنا ہی افسوس تھا۔ البتہ مودی حکومت نے اس سانحہ کو پاکستان کے خلاف سیاسی ماحول پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا۔ کسی ثبوت کے بغیر یہ دعویٰ کیا گیا کہ اس دہشت گردی میں پاکستان ملوث تھا، اسی لیے بھارت نے مئی میں پاکستان پر حملہ کیا تھا۔ یوں تو پاکستان بھی انڈیا پر الزام عائد کرتا ہے کہ خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی کو بھارت سپانسر کرتا ہے۔ تاہم ایسے الزامات سے سیاسی فائدہ تو اٹھایا جاسکتا ہے لیکن اس طریقہ سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ بلکہ اگر عوام کو گمراہ کرکے انہیں ہمسایہ ملک کے خلاف نفرت پر آمادہ و تیا رکیاجائے گا تو اس سے دوررس مشکلات پیدا ہوں گی اور تنازعہ بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ دونوں ملکوں کو اپنے غریب عوام کی بہبود اور امن کے لیے کسی بھی تصادم سے بچنے کی سخت ضرورت ہے۔
دبئی میں ایشیا کپ کے دوران اختیار کیے گئے رویے اور بعد میں پریس کانفرنس میں ایک سانحہ کو موضوع گفتگو بناکر پاکستان پر الزام تراشی کی کوشش سے معاملات پیچیدہ ہوں گے۔ ایسی صورت میں مستقبل کے کسی مقابلے کے بعد دونوں ٹیموں کے کپتان کھیل کی بجائے سیاسی نکات پر گفتگو کرتے دکھائی دیں گے۔ یہ رویہ کھیل کی روح کے خلاف اور امن کی امید ختم کرنے کے مترادف ہوگا۔ بھارتی حکام کو سوچنا چاہئے کہ اگر کل کسی پریس کانفرنس میں کوئی پاکستانی کپتان مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی داستان سنانے بیٹھ گیا تو نئی دہلی کا رد عمل کیا ہوگا؟
بلاشبہ پاکستان اور بھارت کے درمیان متعدد سنگین مسائل موجود ہیں لیکن دانشمندی کا تقاضہ ہے کہ ان میں اضافہ سے گریز کیا جائے۔ دونوں طرف کےلیڈروں کو سمجھنا چاہئے کہ نفرت میں اضافہ آسان ہے لیکن ایک بار یہ جن بوتل سے باہر نکل آیا تو اسے واپس بند کرنا مشکل ہوجائےگا۔ اس لیے مناسب ہوگا افہام و تفہیم اور دوستی کی بات کی جائے اور کسی بھی موقع کو فاصلے بڑھانے کی بجائے انہیں کم کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔
( بشکریہ:کاروان ۔۔ناروے )