پاڑہ چنار : پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع کرم کے صدر مقام پاڑہ چنار میں راستوں کی بندش کے خلاف احتجاجی دھرنا تیسرے روز میں داخل ہو چکا ہے جس میں کرم کے رہائشی صوبائی حکومت سے آمد و رفت کے راستے کھولنے اور اُن کی جان و مال کی حفاظت کے لیے اقدامات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔یاد رہے کہ پاڑہ چنار اور اس سے منسلک دیگر چھوٹے دیہات کا رابطہ پاکستان کے دیگر علاقوں سے گذشتہ پانچ ماہ سے منقطع ہے جس کے باعث پہاڑوں میں گھرے اس علاقے میں خوراک اور دیگر بنیادی اشیائے ضروریہ کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے۔
یہاں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ماہ رمضان کی آمد کے بعد سے صورتحال مزید گھمبیر ہوئی ہے اور بیشتر افراد کو ’افطار کے لیے کھجور تک دستیاب نہیں ہے جبکہ سحری میں چائے، روٹی پر گزارہ ہو رہا ہے۔‘خیبر پختونخوا کی حکومت کی جانب سے قافلوں کی صورت میں کھانے پینے کی اشیا، اشیائے ضروریہ اور دیگر سامان سے لدی گاڑیاں بھجوائے جانے کا عمل جاری ہے تاہم ان قافلوں پر بار بار ہونے والے حملوں کی وجہ سے یہ عمل تعطل کا شکار رہتا ہے۔
ضلع اپر کرم کے شہریوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ماہ رمضان میں خوراک کی اتنی قلت ہے کہ لوگوں کو افطار کے لیے کھجور تک دستیاب نہیں ہے جبکہ وہ سحری اور افطار میں صرف چائے اور روٹی پر گزارہ کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ ضلع کرم میں حالات اکتوبر 2024 میں اُس وقت خراب ہوئے تھے جب مسافر قافلوں پر پے در پے حملوں کے واقعات پیش آئے تھے۔ ان واقعات کے نتیجے میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ اس کے ردعمل میں علاقے میں متعدد مکانات اور دکانوں کو نذر آتش کیا گیا تھا۔
ان واقعات کے بعد علاقے میں خوراک اور اشیائے ضروریہ کی شدید قلت پیدا ہوئی اور حکام کی جانب سے اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے انتہائی سکیورٹی میں قافلوں کی صورت میں امدادی اشیا کو علاقے میں بھیجا گیا مگر ان قافلوں پر بھی حملے ہوئے اور چند ٹرک ڈائیوروں کو اغوا بھی کیا گیا۔مقامی لوگوں نے بتایا سامان سے لدے ٹرکوں پر مشتمل کانوائے کی صورت میں آنے والی گاڑیاں بمشکل ہی کرم تک پہنچ پاتی ہیں کیونکہ روانہ ہونے والی بیشتر گاڑیوں کو راستے ہی میں روک لیا جاتا ہے۔کرم کے مقامی افراد نے بتایا کہ اس صورتحال کے باعث انھیں سبزیاں اور پھل انتہائی مہنگے نرخوں پر مل رہے ہیں۔
بی بی سی کے استفسار پر شہریوں نے بتایا کہ ٹینڈا اور گوبھی جیسی عام دستیاب سبزیاں بھی اس وقت علاقے میں 300 روپے سے 400 روپے فی کلو میں فروخت ہو رہی ہیں جبکہ پیاز کی فی کلو قیمت 300 روپے ہے۔ ان کے مطابق مقامی طور پر پیدا ہونے والی سبزیاں تو مناسب ریٹ پر مل جاتی ہیں مگر باہر کے شہروں سے آنے والی تمام سبزیاں انتہائی مہنگے نرخوں سے مل رہی ہیں۔شہریوں کے مطابق چونکہ گذشتہ پانچ ماہ سے اس علاقے میں پیٹرول اور ڈیزل کی ترسیل متاثر ہے اس لیے ماہ رمضان میں پیٹرول 1000 روپے فی لیٹر سے 1500 روپے فی لیٹر تک میں بلیک میں فروخت ہو رہا ہے اور اس کی بھی انتہائی کم مقدار ملتی ہے۔کرم سے تعلق رکھنے والی مسرت بنگش ایک سماجی کارکن ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ لوگ اب یہ سوچ رہے ہیں کہ اگر یہی صورتحال جاری رہی تو شہری فاقوں مر جائیں گے یا پھر وہ کوئی انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوں گے کیونکہ یہاں عام رائے یہی ہے کہ حکومت اس صورتحال سے نمٹنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔
ان کے مطابق ضلع کرم میں گذشتہ پانچ ماہ کے دوران محض دس کے لگ بھگ اشیا سے لدے ٹرکوں پر مشتمل کانوائے بھیجے گئے ہیں جس میں پانچ لاکھ سے زیادہ آبادی کے اس علاقے کے لیے سبزیاں، ادویات اور کچھ دیگر اشیا پہنچائی گئی ہیں لیکن یہ سب آٹے میں نمک کے برابر ہے۔مسرت بنگش کے مطابق ‘خود سوچیں جب ماہ رمضان میں ٹماٹر 500 روپے سے 600 روپے فی کلو ملنے لگ جائیں تو غریب آدمی یہ کیسے خریدے گا۔’
انھوں نے بتایا کہ گذشتہ برسوں میں ماہ رمضان میں اُن کے گھر بڑا دستر خوان سجتا تھا کیونکہ اس علاقے کے لوگ خوش خوراک ہیں اور یہاں کھلے دل سے لوگ خریداری بھی کرتے تھے اور لوگوں میں تقسیم بھی کرتے تھے، لیکن اس مرتبہ حالات بالکل مختلف ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ‘اس رمضان میں سحری اور افطاری دونوں اوقات چائے کے ساتھ روٹی کھا کر گزارہ کر رہے ہیں۔ غریب لوگوں کے گھروں میں تو کچھ بھی نہیں ہے۔ دودھ کچھ مقامی طور پر مل جاتا ہے اور گندم اور آٹا بھی بہت تھوڑا رہ گیا ہے۔’
( بشکریہ : بی بی سی ۔۔ اردو )
فیس بک کمینٹ