پاکستان میں سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے استعمال نے جہاں اظہارِ رائے کو آسان بنایا ہے، وہیں سرکاری ملازمین سمیت عام شہریوں کے لیے ذمہ داریوں میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔ سرکاری ملازمین پر خاص طور پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ کسی ایسی سرگرمی میں شریک نہ ہوں جس سے ریاستی اداروں کی ساکھ متاثر ہو یا حکومتی پالیسیوں کے بارے میں غلط تاثر پھیلے۔ لیکن بدقسمتی سے سوشل میڈیا پر جھوٹی اور بے بنیاد خبریں شائع کرنے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے، جس کے نتیجے میں متعدد سرکاری افسران کو محکمانہ اور قانونی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ایسے معاملات میں “پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (PECA) 2016” کے مختلف دفعات لاگو ہوتی ہیں، جن میں جھوٹی خبر یا غلط معلومات کے پھیلاؤ کے خلاف واضح سزائیں بیان کی گئی ہیں۔
قانون کے مطابق، اگر کوئی شخص — خواہ وہ سرکاری ملازم ہی کیوں نہ ہو — کسی فرد، ادارے یا ریاست کے بارے میں سوشل میڈیا پر غلط معلومات، افواہیں یا جھوٹی خبریں شائع کرے، تو پیکا ایکٹ کی دفعہ 20، 24 اور 37 اس پر لاگو ہوتی ہیں۔
دفعہ 20 کے تحت اگر کوئی شخص کسی دوسرے کی ساکھ کو نقصان پہنچانے والی یا جھوٹی معلومات سوشل میڈیا پر شائع کرے تو اسے تین سال تک قید اور ایک لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا دی جا سکتی ہے۔
اسی طرح دفعہ 24 میں “آن لائن جعلسازی یا غلط معلومات کے ذریعے نقصان پہنچانے” کا ذکر ہے، جس کی سزا پانچ سال تک قید اور پچاس لاکھ روپے تک جرمانہ ہو سکتی ہے۔
دفعہ 37 کے مطابق Pakistan Telecommunication Authority کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی ایسے مواد کو بلاک یا ہٹوا سکتی ہے جو ریاست، مذہب، عدلیہ یا کسی عوامی ادارے کے خلاف جھوٹا یا اشتعال انگیز ہو۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ پیکا 2016 کے اطلاق میں سرکاری ملازمین کے لیے سختی کا عنصر زیادہ نمایاں ہے کیونکہ وہ ریاستی ملازم ہونے کے ناطے سروس رولز کے بھی پابند ہوتے ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ کے وکیل عبدالقیوم ناصر کے مطابق:
> “سرکاری ملازمین اگر اپنی شناخت ظاہر کرتے ہوئے یا اپنے محکمے کے متعلق جھوٹی خبریں سوشل میڈیا پر پھیلائیں تو یہ دوہری خلاف ورزی کے زمرے میں آتی ہے۔ ایک جانب یہ پیکا ایکٹ کی خلاف ورزی ہے، دوسری جانب یہ سرکاری ملازمین (کنڈکٹ) رولز 1964 کی شق 22 اور 23 کی بھی خلاف ورزی ہے، جس کے تحت ملازم پر محکمانہ کارروائی ہو سکتی ہے، بشمول معطلی یا ملازمت سے برطرفی۔”
سرکاری ملازمین کے آن لائن رویے کے حوالے سے مشہور ملتان کے وکیل جناب محمد اشفاق چوہدری (ایڈووکیٹ) نے نشاندہی کی ہے کہ:
> “سرکاری اہلکار کا سوشل میڈیا پر ہر پوسٹ بذاتِ خود ادارے کی عکاسی کرتی ہے۔ اگر وہ بے بنیاد افواہیں یا جھوٹی خبریں پھیلاتا ہے تو یہ نہ صرف جرم ہے بلکہ ادارے کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ اس لیے محکمہ اور ایف آئی اے دونوں کی مشترکہ کارروائی ضروری ہے۔”
ان کا کہنا ہے کہ ملتان میں ہونے والی انکوائریاں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ “ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر احتیاط نہ برتنا سرکاری ملازم کے لیے ایک سنگین خطرہ بن گیا ہے”۔
ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کے مطابق، گزشتہ چند برسوں میں ملتان سمیت جنوبی پنجاب کے مختلف اضلاع میں سرکاری ملازمین کے خلاف جھوٹی معلومات کے پھیلاؤ کے درجنوں کیسز سامنے آئے۔ ذرائع کے مطابق 2024 اور 2025 کے دوران ملتان سے تقریباً 18 تحریری درخواستیں موصول ہوئیں جن میں مختلف محکموں کے ملازمین کے خلاف سوشل میڈیا پر گمراہ کن پوسٹس شائع کرنے کی شکایات کی گئیں۔ ان میں زیادہ تر درخواستیں محکمہ تعلیم، بلدیات، اور صحت کے عملے سے متعلق تھیں۔
ان شکایات پر ایف آئی اے نے ابتدائی تحقیقات کرتے ہوئے چھ ملازمین کے اکاؤنٹس سے جعلی مواد کی تصدیق کی، جنہیں بعد ازاں طلب کر کے ان کے بیانات ریکارڈ کیے گئے۔ تین کیسز میں مقدمہ درج ہوا جبکہ باقی معاملات میں متعلقہ محکموں کو انضباطی کارروائی کے لیے مراسلے جاری کیے گئے۔ ذرائع کے مطابق دو ملازمین کو عارضی طور پر معطل کیا گیا، اور محکمہ تعلیم نے ایک ملازم کے خلاف انکوائری کمیٹی تشکیل دی۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر رائے دینا ہر شہری کا حق ہے، مگر سرکاری ملازم چونکہ ریاستی اداروں کی نمائندگی کرتا ہے، اس لیے اس کی رائے ایک عام شہری کی طرح نہیں سمجھی جاتی۔ اگر وہ اپنے محکمے کے معاملات پر غلط یا بے بنیاد بات کرے تو اس سے عوام میں اداروں کے بارے میں غلط تاثر پھیلتا ہے جو براہِ راست قومی مفاد کے خلاف ہے۔
ایف آئی اے کے مطابق، ایسے مقدمات میں ملزمان سے ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کا ڈیٹا، پوسٹس، تصاویر، ویڈیوز اور چیٹ لاگز حاصل کیے جاتے ہیں جو عدالت میں ثبوت کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں۔ عدالتیں عام طور پر ان مقدمات میں سخت رویہ اختیار کرتی ہیں کیونکہ یہ “ڈیجیٹل بددیانتی” کے زمرے میں آتا ہے۔
سائبر کرائم کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی نے جہاں معلومات کے تبادلے کو آسان بنایا، وہیں "غلط معلومات” کو ہتھیار کی صورت دے دی ہے۔ اب ایک سرکاری ملازم اگر سیاسی یا ذاتی اختلاف کے باعث ایک جھوٹی خبر پھیلا دیتا ہے تو اس کا اثر ہزاروں افراد تک پہنچ جاتا ہے اور اداروں کی ساکھ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچاتا ہے۔ اسی لیے پیکا ایکٹ کو “ڈیجیٹل ذمہ داری کا قانون” کہا جاتا ہے۔
قانون کے مطابق جھوٹی خبر یا غلط معلومات پھیلانے والا شخص اگر اپنی غلطی تسلیم کر کے معافی مانگے یا خبر واپس لے لے، تب بھی جرم ختم نہیں ہوتا کیونکہ اس سے ہونے والا نقصان فوری طور پر درست نہیں کیا جا سکتا۔ عدالتیں اس بنیاد پر رعایت ضرور دے سکتی ہیں مگر مقدمہ ختم نہیں ہوتا۔
فیس بک کمینٹ

