ملتان : اولیاء اللہ کی سرزمین ملتان میں بزرگ ہستیوں کی کئی درگاہیں ہیں جہاں کبوتر درباروں کا جزو اور یہاں کی ثقافت کا اہم حصہ سمجھے جاتے ہیں۔ویسے تو کبوتروں کی کئی اقسام اور نسلیں ہیں لیکن ملتان کی سرزمین کےلئے جنگلی کبوتروں کو لازم وملزوم سمجھا جاتا ہے ۔انہیں سرائیکی زبان میں "لٹھا”کبوتر بھی کہتے ہیں۔
ان کے بارے میں عام خیال یہی ہے کہ یہ فقیر کبوتر ہیں،اس لئے زائرین اپنی روح کی تسکین کےلئے لٹھے کبوتروں کو عقیدت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، قیمت ادا کرکے دانہ ڈالتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے آسمان سے غول در غول ہزاروں کی تعداد میں غٹر غوں کرتے درگاہوں کے صحن میں اتر آتے ہیں اور یہ سلسلہ پورا دن جاری رہتا ہے۔
کبوتروں کی تاریخ بہت پرانی ہے۔کبوتر پروری کا ذکر مغل اعظم شہنشاہ اکبر کے نام کے ساتھ جڑتا ہے۔اس سے قبل بھی کبوتر بادشاہوں کےلئے پیغام رسانی یا جاسوسی کا کام سرانجام دیتے تھے۔موجودہ دور میں لاہور،کراچی،ملتان ،ڈیرہ غازیخان،راجن پور سمیت سندھ کے دیہی اور شہری علاقوں میں اب بھی کبوتر بازی کے مقابلے اور ٹورنامنٹ ہوتے ہیں۔ان سے ہٹ کر جنگلی کبوتر کی مستی ،عادات اور رجحانات عام کبوتر سے ذرا مختلف ہوتے ہیں۔یہ آزاد منش ہوتے ہیں اس لیے انہیں جنگلی کبوتر کہتے ہیں .عام خیال یہی ہے کہ لٹھے کبوتروں کا گوشت انسانی صحت کےلئے بہت فائدہ مند ہوتا ہے۔
حکمت کے علاج میں جنگلی کبوتر کو اہمیت حاصل ہے۔معروف حکیم حفیظ بلوچ نے اے پی پی کو بتایا کہ لٹھے کبوتر کے گوشت سے قوت مدافعت میں اضافہ ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ سردی سے جنم لینے والی بیماریاں یا فالج اور لقوے کے مریضوں کو ہم جنگلی کبوتر کا گوشت تجویز کرتے ہیں۔یہ بات واضح ہے کہ ان کبوتروں کا کوئی باقاعدہ ٹھکانہ نہیں ہوتا ۔یہ درباروں اور پرانی عمارات پر رات بسر کرتے ہیں۔حضرت بہاالدین زکریا ملتانی کے درگاہ کے پہلو میں 22 سال سے مقیم ایک عقیدت مند نے بتایا کہ یہ جنگلی نہیں اللہ والے کبوتر ہیں۔میں صبح شام ان کو دانا کھلاتا ہوں اور اللہ کو راضی کرتا ہوں۔
فیس بک کمینٹ