پروین شاکر اردو کی ایسی خوش کلام اور خوش ادا شاعرہ تھیں کہ جن کے بغیر جدید شاعری کا منظر نامہ ادھورا ہے۔ ان کے لہجے میں ایک خاص طرح کا رچاؤ ،غنائیت اور بانکپن ہے ۔ایک فطری بانکپن اور نکھار اور اجلی اجلی رنگت جو صبح کھلنے والے پھول میں ہوتی ہے اپنے روپ میں ڈوبا ہوا اپنے حسن پر نازاں۔پروین شاکر کی شعری کائنات دونوں اصناف سے عبارت ہے ۔ اگرچہ انہوں نے ایک طرف اپنے خیالات کو غزلوں کا پیراہن دیا تو دوسری طرف فکر کو نظموں کے سانچوں میں ڈھال کر شہر ِسخن کو جلا بخشی ۔
پروین شاکر کے پانچوں شعری مجموعوں میں غزلوں کی نسبت نظموں کی تعداد زیادہ ہے ۔ ہر چند کہ غزل ہی ان کی شہرت کی وجہ بنی مگر ان کی نظموں کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ان کی نظموں کا جائزہ لیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ غزلوں کی نسبت نظموں میں زیادہ پُروقار ،سنجیدہ اور مقدس نظر آتی ہیں۔ اور ایسا بھی نہیں کہ وہ غزل کے کمرے سے نکل کر نظم کے صحن میں داخل ہوتی ہیں۔اگرچہ کئی نظمیں ایسی ہیں جن میں وہ بے باک نظر آتی ہیں اور کچھ موضوعات جو غزلوں میں بیان ہوئے وہ پھر نظموں میں بھی دہرائے گئے ہیں ،لیکن پھر بھی ان کی سنجیدہ نظموں کی تعداد زیادہ ہے۔ اس طرح ان کی نظموں کا لہجہ غزل سے کافی حد تک مختلف ہے۔ ان کی غزلوں میں جو آزاد خیالی ہے وہ نظموں میں نہیں ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہیں بھی غالب کی طرح غزل کی تنگ دامنی کی شکایت رہی ہے۔ نظموں میں چونکہ غزل کی نسبت براہ راست اظہار کا وصف پایا جاتا ہے تو نسائی رویوں کے اظہار کے لیے نظم ہی بہترین صنف ہو سکتی ہے ۔اس بات کی تصدیق پروین شاکر کی نظموں سے کی جا سکتی ہے۔
جہاں تک نظموں کی ہیئت کا تعلق ہے انہوں نے پابند، آزاد اور معریٰ نظم میں اپنے خیالات کا اظہار و ابلاغ کیا ۔اور مزید، ان کے شعری مجموعوں میں کچھ نثری نظمیں بھی شامل ہیں مگر زیادہ تر آزاد نظمیں ہی ہیں ۔جن میں انہوں نے اپنے مشاہدات و تجربات کا اظہار بیانیہ اور کہانی کے رنگ میں کیا ہے۔
پروین شاکر بحیثیت شاعر ملکی اور غیر ملکی سطح پر اپنی منفرد پہچان رکھتی ہیں۔ پروین شاکر کو اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان پر بھی عبور حاصل تھا۔ انہوں نے انگریزی ادب میں ایم۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔ اور اپنی پیشہ ورانہ زندگی کاآغاز بھی انگریزی لیکچرر کی حیثیت سے کیا ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ انگریزی ادب سے کافی حد تک متاثر تھیں۔ ان کے یہاں اکثر و بیشتر انگریزی طرز کی نظمیں موجود ہیں۔ بعض نظموں کے عنوان بھی انگریزی میں ہیں جس طرح۔ ویسٹ لینڈ ، ٹماٹو کیچ اپ ، نِک نیم ، مس فٹ ، کتھارسس، Good to See You, Hot Lineاور وینٹی دی نیم وغیرہ۔ انگریزی کے علاوہ فارسی، عربی اور کہیں کہیں ٹھیٹھ ہندی کے الفاظ بھی ان کی نظموں کی زینت بنے جو ان کی شاعری کے حسن کو دوبالا کر دیتے ہیں۔ ایسی مثالیں اردو ادب میں کم ہی ملتی ہیں ان کی نظمیں اسلوب اور خیالات کے حوالے سے ازبس منفرد ہیں ۔
انہوں نے مغربی جدیدیت کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کبھی نہیں کی بلکہ ان کے اسلوب کی جڑیں ان کی ذات اور ان کے ماحول سے وابستہ ہیں ۔انھوں نے جو بھی لکھا اپنے ذہن اور روح کے تقاضوں کے مطابق لکھا ۔ان کی نظمیں موضوعات کے اعتبار سے متنوع اور رنگارنگ ہیں ۔اگر ژرف بینی سے دیکھا جائے تو ان کی نظمیں تخلیقیت پسندی ،تاثیر آفرینی ، عصری حیثیت، سیاسی و سماجی شعور اور ادراک جیسی خصوصیات سے مالا مال ہیں۔
ڈاکٹر ابوالخیر کشفی پروین شاکر کی نظم نگاری کے بارے میں لکھتے ہیں :
"پروین شاکر کی بیشتر نظمیں اس کی اپنی ذات، اس کے محبوب اور اس کی پھیلی ہوئی کائنات کے مطالعے کا تذکرہ اور صحیفہ ہیں ۔ ان کی نظموں میں بے حد پھیلاؤ او ر بے حد ارتکاز ہے۔ یہ یکجائی آپ کو آسانی سے کسی اور جدید فنکار کے ہاں نہیں ملے گی”(۱)
پروین شاکر کی تمام نظمیں غیرمعمولی ہیں جو ان کے گہرے جذبات و محسوسات اور مشاہدات و تجربات کا نچوڑ ہیں۔ ان کی نظموں کا موضوع کئی مشہور ہستیاں بھی ہیں۔ ان کے یہاں بہت زیادہ طویل نظمیں نہیں ہیں۔ اکثر نظمیں ڈرامائی اور افسانوی طرز پر ہیں جن سے کوئی فکر و خیال نظم کا عنوان بنا ہے ۔پوری نظم پڑھنے کے بعد ہی قاری کسی مفہوم تک پہنچتا ہے ۔جو شروع تو طربیہ انداز میں ہوتی ہیں لیکن ان کا اختتام کامیڈی یا المیہ پر منتج ہوتا ہے۔
پروین شاکر کا پہلا شعری مجموعہ” خوشبو "ہے ۔تب وہ نو عمر تھیں اور ان کے شعور میں ابھی پختگی نہیں آئی تھی۔ اس لیے "خوشبو” کسی حد تک ان کے تلخ تجربات سے معریٰ ہے جو "صد برگ” اور” خود کلامی” کا جوہر ہے ۔لیکن پھر بھی ان کی فنی ہنرمندی اور محسوسات کا احساس نمایاں ہے۔ایک قاری کی نظر سے دیکھیں تو خوشبو اور خود کلامی کے مابین خاصا فاصلہ دکھائی دیتا ہے۔
وہ خود لکھتی ہیں:
"خوشبوکی اشاعت میری پندرہ سے پچیس برس کے دوران کی شاعری ہےبعد میں آنے والے مجموعے ایک مختلف نوعیت کے ہیں ۔ظاہر ہے کہ اس دوران ایک قاری کے نقطہ نظر سے "خوشبو” اور "خودکلامی” کے مابین خاصا فاصلہ دکھائی دیتا ہے ۔ "(۲)
پروین شاکر کے ہاں عورت کی خوشیاں ،دکھ سکھ، جذبے، احساس و محسوسات علامات ، تشبیہات و استعارات کی شکل میں اظہار پاتے ہیں۔ موضوعات کی رنگارنگی اور تجربات کی فراوانی ان کی نظموں میں زندگی پیدا کر دیتی ہے۔ایسی زندگی جس میں ٹھہراؤ نہیں بلکہ سیمابیت ہے ۔”خوشبو "میں پروین شاکر زیادہ تر حصار ِ ذات میں الجھی ہوئی نظر آتی ہے۔ ویسے تو رومان میں بھی کافی وسعت اور گہرائی ہے ہر گام پر نت نئے تجربوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اس حصار میں انہوں نے رُوزن بھی رکھے ہیں جن کے ذریعے وہ باہر کی دنیا کا مشاہدہ کرتی رہتی ہیں۔اور بیرون” حصار کی ہوا” کے اندر کی خوشبو سے ٹکراتی رہتی ہے ۔
ہوا اور نظروں کے اسی لمس کے سہارے انھوں نے اپنے اندر کی لڑکی کو منکشف کر دینے کی خدا سے جودُعا مانگی تھی وہ "خوشبو "میں پوری ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ” خوشبو” میں ان کے اندر کی معصوم شبنمی رخساروں اور حیران آنکھوں والی لڑکی پوری منکشف ہو چکی ہے۔ جب ہی تو اسے چاند کی تمنا کرنے کی عمر میں ذات کے شہر ہزار در کا اسم عطا کر دیا ہے ،جسے وہ آشوبِ آگہی کے عذاب سے تعبیر کرتی ہیں ۔یہ آشوب آگہی کا سفر” خوشبو "سے شروع ہوکر "صدبرگ” "خودکلامی”،” کفِ آئینہ ” تک جاری و ساری رہتا ہے اور” ماہ تمام "کی صورت میں اختتام کو پہنچتا ہے۔ یہ آشوبِ آگہی ہی تو ہے جس کی مختلف صورتیں ہمیں ان کی پوری شاعری میں جلوہ گر نظر آتی ہیں ۔
نو عمر لڑکیوں کی نفسیات اور جذباتی کیفیات کی اتنی سچّی اور واضح عکاسی اتنے سلجھے ہوئے انداز میں شاید ہی کسی اور کے ہاں ملے۔ محبت کا المیہ بدن و روح میں کانپنے اور تھر تھرا ہٹ کی کیفیت پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ان کی نظمیں انہی خیالات کی آئینہ دار ہیں اور یہی پروین شاکر کی شناخت کا باعث بنیں۔ نمونے کے طور پر ان کی چند نظمیں پیش کی جاسکتی ہیں جن میں” احتیاط”،”کشف”،” اعتراف”،” گماں”، ” پیار”،”بس اتنا یاد ہے "،”پہلے پہل”، "کانچ کی سرخ چوڑی "،”پکنک” ،” اندیشہ ہائے دور دراز ” اور "وہ تو خوشبو ہے، ہواؤں میں بکھر جائے گا "وغیرہ ۔
"کشف” کا ایک بند کچھ اس طرح ہے:
ہونٹ بے بات ہنسے
زلف بے وجہ کھلی
خواب دِکھلا کہ مجھے
نیند کس سمت چلی
خوشبو لہرائی میرے کان میں سرگوشی کی
اپنی شرمیلی ہنسی میں نے سُنی
اور پھر جان گئی
میری آنکھوں میں ترے نام کا تارہ چمکا ہے
"کشف” میں ایک لڑکی پر ایک اچھوتے جذبے کا انکشاف ہو رہا ہے جس سے وہ انجان ہے۔ تبھی تو ہونٹ خودبخود مسکرانے لگے ہیں۔ زلف بے وجہ سے کھلتی ہے۔تن من میں خوشبوئیں بسیرا کرنے لگتی ہیں ۔جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ کوئی خوابوں کا شہزادہ من میں آ بساہے ۔یہی وجہ ہے کہ اپنی شرمیلی ہنسی خود اپنے لیے بھی حیرت کا باعث بنی ہے۔
اسی طرح کے احساسات کا اظہار نظم "پہلے پہل” میں بھی ہوتا ہے ۔جس میں ایک لڑکی کے جذبات کی عکاسی کی گئی ہے جو پیار کی کونپل پھوٹنے کے بعد کچی عمر کے جذبوں سے لبریز ہے۔ ہر آہٹ پر چونک جاتی ہے اور اپنے آپ سے بھی ڈر جاتی ہے۔کہ کہیں چہرے کی پھونک کی تمتما ہٹ جو کہ محبوب سے ملنے کی وجہ سے ہے اس راز کو فاش نہ کر دے ۔
ایک بند :
شِکن چُپ ہے
بدن خاموش ہے
گالوں پہ ویسی تمتماہٹ بھی نہیں ،لیکن،
میں گھر سے کیسے نکلوں گی،
ہَوا ،چنچل سہیلی کی طرح باہر کھڑی ہے
دیکھتے ہی مُسکرائے گی !
پروین شاکر شاعری میں صرف اظہار کی ہی نہیں ابلاغ کی بھی قائل تھیں۔ اس لیے ان کی نظموں کے ذاتی اور داخلی ہونے کے باوجود پڑھنے والوں کو ان کی شاعری کے ادراک میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی ۔ان کی نظموں کے عنوانات قاری کی بڑی مدد کرتے ہیں ۔ان کی بیشتر نظموں کو پڑھنے کے بعد جب ان پر دوبارہ نظر پڑتی ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے عنوان کے تجربےکو "Crystalize” کر دیا ہو۔ ان کی نظموں میں جس عشق کی مصوری ملتی ہے وہ سادہ بھی ہے اور "Sophisticated”بھی ۔
( جاری )
فیس بک کمینٹ