عمران خان نے ایک بار پھر تحریک انصاف کے کارکنوں کو اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کے بعد ان کی بہن علیمہ خان نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے بانی نے 24 نومبر کو اسلام آباد مارچ کی کال دی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ آپ کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ مستقبل میں ہم نے مارشل لا میں رہنا ہے یا آزادی میں رہنا ہے‘۔ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ یہ احتجاج کس حد تک کامیاب ہوتا ہے۔
پارٹی کے بانی چئیرمین عمران خان کی گزشتہ سال اگست میں گرفتاری کے بعد سے تحریک انصاف متعدد بار اسلام آباد پر چڑھائی کی کوشش کرچکی ہے تاہم وہ اس مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ لاہور اور اسلام آباد میں جلسے کرنے کی کوششیں بھی ناکام رہی ہیں۔ اکتوبر کے شروع میں کیے گئے مارچ کی ناکامی کی اصل وجہ تو وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا ہی تھے جو عین احتجاج کے بیچ سے غائب ہوگئے اور بعد میں یہ پروپگنڈا کیا گیا کہ انہیں ’لاپتہ‘ کردیا گیا ہے۔ لیکن وہ خود ہی اگلے روز خیبر پختون خوا اسمبلی کے اجلاس میں پہنچ گئے جو درحقیقت انہیں لاپتہ کرنے کے خلاف احتجاج کے لیے بلایا گیا تھا۔ ایک بار پھر تحریک انصاف کے حامیوں کی ساری امیدیں علی امین گنڈا پور سے وابستہ ہیں ۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ کارکنوں کی کثیر تعداد لے کر آئیں گے اور اسلام آباد میں اتنی زیادہ تعداد میں لوگ جمع ہوجائیں گے کہ حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ البتہ اب تک یہ حکمت عملی کامیاب نہیں ہوسکی۔ اس کے باوجود عمران خان ایک بار پھر اسلام آباد میں زندگی معطل کرکے سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
تحریک انصاف کا ہر احتجاج عمران خان کی رہائی کے لیے کیا جاتا ہے۔ پارٹی قیادت کا دعویٰ ہے کہ انہیں ناجائز طور سے قید رکھا گیا ہے اور ان کے خلاف تمام مقدمے بے بنیاد اور کسی ثبوت کے بغیر قائم ہوئے ہیں۔ عدالتوں سے عمران خان کو ریلیف بھی ملتا رہا ہے تاہم اگر ایک مقدمے میں ضمانت یا بریت ہوتی ہے تو وہ کسی دوسرے مقدمے میں قید ہوتے ہیں یا کسی نئے مقدمے میں ان کی گرفتاری ڈال دی جاتی ہے۔ عمران خان کے خلاف قائم مقدمات کے قانونی میرٹ کا جائزہ لینا آسان نہیں ہے۔ کیوں کہ ملک کا نظام انصاف پیچیدہ اور مشکل ہے۔ اگر ارباب اختیار چاہیں تو وہ کسی نہ کسی عذر کی بنیاد پر کسی بھی لیڈر کو گرفتار رکھ سکتے ہیں۔ پاکستانی انتظامیہ کا یہ آزمودہ ہتھکنڈا ہے اور ملکی عدالتیں بھی اس نظام کے ہاتھوں بے بس دکھائی دیتی ہیں۔ البتہ یہ بھی واضح ہونا چاہئے کہ عمران خان اس قسم کی صورت حال کا سامنا کرنے والے پہلے لیڈر نہیں ہیں۔ ان کے اپنے دور حکومت میں مخالف سیاسی لیڈروں کو اسی قسم کی آنکھ مچولی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ نوازشریف تو نیب عدالت سے طویل المدت سزا پانے کے بعد کوٹ لکھپت جیل میں قید کردیے گئے تھے تاہم بیماری کے عذر پر انہیں عدالت اور حکومت سے بیرون ملک سفر کی اجازت مل گئی اور وہ اس مشکل سے نجات پاگئے۔ بعد میں سیاسی صورت حال تبدیل ہونے پر دیگر لیڈروں کی طرح ان کے خلاف تمام مقدمات بھی ختم ہوگئے اور ان پر سپریم کورٹ کی طرف سے سیاست سے تاحیات نااہلی کی پابندی بھی ختم کردی گئی۔ وہ چوتھی بار ملک کے وزیر اعظم تو نہیں بن سکے لیکن قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوچکے ہیں۔
عمران خان یا ان کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ کسی جعلی طریقے کے تحت قید سے رہائی پانے پر یقین نہیں رکھتے بلکہ شفاف طریقہ اختیار کریں گے تاکہ ملک میں انصاف کا بول بالا ہو۔ ایک پیچیدہ اور مشکل نظام قانون میں دیرپا یا دوررس تبدیلی لانے کے لیے طویل سیاسی جد و جہد کی ضرورت ہے ۔ یہ جد و جہد البتہ سڑکوں کی بجائے اسمبلیوں کے ایوانوں میں ہونی چاہئے۔ تحریک انصاف کے پاس قومی اسمبلی کے علاوہ پنجاب اسمبلی میں بھی قابل ذکر پارلیمانی قوت موجود ہے لیکن وہ اسے استعمال کرنے اور کسی پارلیمانی گفت و شنید کے ذریعے معاملات آسان بنانے پر راضی نہیں ہے۔ اس کی ایک وجہ ضرور یہ ہوسکتی ہے کہ حکمرانی کے موجودہ نظام میں تحریک انصاف کو نیچا دکھانے کا تہیہ کیا گیا ہے۔ لیکن اس کی اہم ترین وجہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے لیڈر کوئی واضح اور قابل عمل سیاسی حکمت عملی اختیار کرنے میں کامیاب نہیں ہیں۔ تحریک انصاف کے پارٹی اسٹرکچر کے مطابق بیرسٹر گوہر علی پارٹی کے چئیرمین ہیں لیکن پارٹی عمران خان کی مرضی و اجازت کے بغیر کوئی فیصلہ کرنے پر قادر نہیں ہے۔ اس طرح تحریک انصاف ایسے لوگوں کے گروہ کے طور پر اپنی شناخت بنا چکی ہے جو عمران خان کے جاں نثار ہیں اور ان کے حکم پر کسی بھی طریقے کو جائز مانتے ہیں لیکن پارٹی کا کوئی ایسا فورم موجود نہیں ہے جو معروضی حالات،سیاسی ضرورتوں اور اپنی پارلیمانی قوت کی بنیاد پر فیصلے کرے اور ان پر عمل درآمد کے لیے کام کرے۔
تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ اسے 8 فروری کے انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل ہوئی تھی لیکن فارم 47 کے ذریعے ان کا مینڈیٹ چرا لیا گیا۔ اسی بنیاد پر وہ شہباز شریف کی حکومت کو جعلی اور مسلط کردہ قرار دے کر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ملک پر درحقیقت فوج کی حکومت ہے۔ تاہم پارٹی کے عملی اقدامات سے لیڈروں کا یہ مؤقف ثابت نہیں ہوتا۔ تحریک انصاف نے اسی الیکشن کمیشن کے زیر انتظام منعقد ہونے والے انتخابات میں خیبر پختون خوا میں اکثریت حاصل کی اور صوبائی حکومت قائم کی ہوئی ہے۔ اس بارے میں وہ یہ نہیں کہتی کہ یہ اسمبلی بھی جعلی مینڈیٹ سے وجود میں آئی ہے۔ ایک طرف قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کو جعلی اور ناجائز قرار دیا جاتا ہے لیکن تحریک انصاف ان ایوانوں کا باقاعدہ حصہ بھی ہے۔ اس کا جب دل کرتا ہے وہاں جاکر پارلیمانی گروپ کے طور پر حقوق مانگنے لگتی ہے اور جب ضرورت محسوس ہوتی ہے تو وہ اسمبلی کی کارروائی کا بائیکاٹ کرکے اسے جعلی قرار دیتی ہے۔ اس طریقہ سے یہی واضح ہوتا ہے کہ پارٹی قیادت یہ فیصلہ نہیں کرپا رہی کہ وہ نظام کے اندر رہتے ہوئے تبدیلی کی کوشش کرے یا نظام سے باہر نکل کر اسے گرانے کی کوشش کی جائے۔ عمران خان اور تحریک انصاف نظام کو گرانا چاہتے ہیں لیکن وہ اس کے دست و بازو بھی بنے ہوئے ہیں۔ یوں بھی نظام کی تبدیلی کا مطالبہ عمران خان کی رہائی کے ایک نکاتی نعرے پر آکر ختم ہوجاتا ہے۔
ایک منظم اور مقبول سیاسی جماعت کے طور پر تحریک انصاف سے نعروں و احتجاج کی سیاست کرنے کی بجائے ، یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ ملکی نظام کی اصلاح کے لیے سیاسی کردار ادا کرے۔ مسائل کی نشاندہی کی جائے اور ان کا حل بھی بتایا جائے۔ مثال کے طور پر اس وقت ملک کو شدید مالی بحران کا سامنا ہے لیکن تحریک انصاف آئی ایم ایف سے پاکستان کے خلاف فیصلہ کرنے کی اپیل کے علاوہ کچھ نہیں کرسکی۔ یہ اپیل بھی اسی صورت میں قابل غور ہوسکتی تھی اگر پارٹی کے معاشی ترجمان حکومت کی اختیار کردہ حکمت عملی کے متبادل مالی منصوبہ پیش کرتے اور واضح کیا جاتا کہ تحریک انصاف کے مالی منصوبے میں آئی ایم ایف سے امداد لینا شامل نہیں ہے۔ تاہم اس صورت میں اسے بتانا پڑتا کہ وہ قرضے ادا کرنے اور عوام و ملک کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے کون سا طریقہ اختیار کرے گی۔ محض نعرے بازی نہ تو مسائل کا حل ہوتا ہے اور نہ ہی ان ہتھکنڈوں سے کسی سیاسی پارٹی کو معتبر اور ملک کے لیے سود مند قرار دیا جاسکتا ہے۔ بدقسمتی سے تحریک انصاف فی الوقت صرف احتجاج ہی کو اقتدار میں واپسی کا واحدراستہ سمجھتی ہےجس کی کامیابی کا امکان بہت کم ہے۔
یوں تو تحریک انصاف نظام کی تبدیلی اور عمران خان کے لیے انصاف کی بات کرتی ہے لیکن اس کی حکمت عملی کو دیکھا جائے تو اس کے صرف دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ سپریم کورٹ از خود نوٹس لے کر عمران خان کی گرفتاری کو ناجائز قرار دے اور ان کی رہائی کا حکم جاری کردے ۔ حکومت کو پابند کیا جائے کہ وہ عمران خان اور تحریک انصاف کے لیڈروں کو کسی بھی مقدمے میں گرفتار نہ کرے ۔ اس خواہش نما مطالبے کی وجہ سے تحریک انصاف نے سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف بھرپور مہم جوئی کی کیوں کہ اس کا خیال تھا کہ ان کی موجودگی کی وجہ سے عمران خان رہا نہیں ہوتے اور نہ ہی 8 فروری کے انتخابات کا آڈٹ ہوسکا ہے۔ تاہم اس دوران حکومت 26 ویں ترمیم منظور کرانے میں کامیاب ہوگئی اور نیا چیف جسٹس پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پر لگا دیا گیا۔ اس ترمیم کی منظوری کے عمل میں تحریک انصاف بھی شامل رہی تھی لیکن قاضی فائز عیسیٰ کی عدم موجودگی میں سپریم کورٹ کو نشانہ بنانے کی بجائے چھبیسویں ترمیم کو غیر آئینی قرار دے کر احتجاج کیا جارہا ہے۔
البتہ تحریک انصاف کا مرغوب ترین طریقہ احتجاج ، لانگ مارچ اور دھرنا رہا ہے۔ نئے انتخابات اور عمران خان کی گرفتاری کے بعد سے تحریک انصاف پنجاب میں کسی قسم کی سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ ہر مارچ سے پہلے خیبر پختون خوا سے علی امین گنڈا پور نعرے لگانا شروع کردیتے ہیں اور پارٹی لیڈر یہ توقع کرنے لگتے ہیں کہ کے پی سے ایک بڑا اور پر جوش جلوس آکر اسلام آباد کے در ودیوار ہلا دے گا۔ یہ امید اب تک تو پوری نہیں ہوئی اور نہ ہی یہ امکان ہے کہ 24 نومبر کا احتجاج پہلے سے مختلف ہوگا۔ پارٹی اسلام آباد پہنچنے کی کوشش ضرور کرے گی لیکن کسی طویل المدت دھرنا دینے یا اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو گھروں سے نکالنے میں شاید کامیاب نہ ہوسکے جو موجودہ نظام کو لپیٹنے کا سبب بن سکیں۔ عمران خان اور تحریک انصاف کو ہوشیاری سے موجودہ نظام میں سے ہی کوئی راستہ نکالنے کی کوشش کرنا ہوگی لیکن فی الوقت اس کے بانی یا دیگر لیڈر اس آپشن پر غور کے لیے آمادہ نہیں ہیں۔
عمران خان بار بار 2014 میں دیے گئے دھرنے کی بات کرتے ہیں اور اپنی اس حکمت عملی کا شاہکار بناکر پیش کرتے ہیں لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ وہ دھرنا نواز شریف کی حکومت کے خلاف اسٹبلشمنٹ کی مدد اور سرپرستی سے دیا گیا تھا ۔ لیکن اب وہ اسی اسٹبلشمنٹ کے مد مقابل ہیں اور اسے شکست دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ملک میں جمہوری نظام کی مکمل بحالی کے لیے سیاست میں فوج کا کردار ضرور ختم ہونا چاہئے لیکن یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے جوش و خروش اور تصادم پر اصرار کی بجائے ہوش و حواس سے تمام سیاسی قوتوں کے ساتھ ایک پیج پر آنے کی ضرورت ہوگی۔ جان لینا چاہئے کہ سیاسی لیڈر ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے ہوئے سیاسی عمل کو کمزور اور معاملات پر اسٹبلشمنٹ کی گرفت مضبوط کرتے ہیں۔ تحریک انصاف 24 نومبر کو ایک بار پھر اسی عاقبت نا اندیشی کا مظاہرہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ناروے )
فیس بک کمینٹ