وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطااللہ تارڑ نے کہا ہے کہ ’ تحریک انصاف کا یوم سیاہ بری طرح ناکام ہوگیا اور ایک آدمی بھی باہر نہیں نکل سکا‘۔ اگر وزیر اطلاعات کے اس بیان کو سو فیصد درست مان لیا جائے تو اس سے یہی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ دفعہ 144 کے نفاذ، پکڑ دھکڑ، مواصلت میں رکاوٹ کاریاستی جبر کامیاب رہا ۔ واضح ہے کہ خوف تو موجود ہے۔ دیکھنا صرف یہ ہے کہ زیادہ خوفزدہ کون ہے۔ حکومت یا اس کے مخالفین۔
وفاقی حکومت کے ترجمان کی طرف سے عجلت میں دیے ہوئے اس بیان کو ایک اور زاویے سے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ اسلام آباد کے علاوہ تین صوبوں میں قانون کی دفعات اور انتظامی طاقت استعمال کرکے خیبر پختون خوا کے علاوہ کسی حکومت نے تحریک انصاف کو کسی قسم کا اجتما ع کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اس کے باوجود احتجاجی ریلیوں کی روک تھام کے لیے دفعہ 144 کے تحت پانچ یا اس سے زیادہ افراد کے اجتماع پر پابندی لگا دی گئی۔ متعدد شہروں میں اس عذر کی بنا پر تحریک انصاف کے متعدد لیڈروں کو گرفتار بھی کیا گیا۔ کوئٹہ کے سوا کہیں سے قانون کی ’خلاف ورزی‘ کی اطلاع نہیں ملی۔ بلوچستان کے دارالحکومت میں تحریک تحفظ آئین پاکستان کے زیر اہتمام عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاجی ریلی نکالی گئی اور جلسے کا اہتمام کیا گیا۔ اس موقع پر صوبائی پولیس نے گرفتاریوں سے گریز کیا۔ البتہ خیبر پختون خوا میں چونکہ تحریک انصاف کی حکومت ہے ، وہاں صوابی میں تحریک انصاف نے بھرپور جلسہ کیا اور موجودہ نظام حکومت کو چیلنج کیا گیا۔ باقی مقامات پر قانون شکنی سے گریز کے ذریعے تحریک انصاف نے بہر حال یہ پیغام دینے کی کوشش ضرور کی ہے کہ وہ پر امن رہنا چاہتے ہیں اور حکومت کی طرف سے انہیں شر پسند عناصر کا ٹولہ قرار دینے کے الزامات درست نہیں ہیں۔
ان دونوں پہلوؤں سے وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے بیان کا جائزہ لیا جائے تو اسے غلط اور گمراہ کن کہنا پڑے گا۔ اول تو جمہوری طریقے سے اقتدار سنبھالنے کا دعویٰ کرنے والی حکومت کسی سیاسی اجتماع یا احتجاج پر پابندی لگانے کی روادار نہیں ہوسکتی۔ سیاسی عمل کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومتیں ہمہ قسم سیاسی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں اور رکاوٹ ڈالنے کی بجائے سہولت کاری کی کوشش کرتی ہیں۔ البتہ 8 فروری کو جیسے تحریک انصاف کے علامتی احتجاج کو روکنے کے لیے قانونی اور انتظامی اختیارات کو بروئے کار لایا گیا، وہ موجودہ حکومت کی جمہوری حیثیت پر بڑا سوالیہ نشان لگانے کا سبب بنے ہیں۔ حکومت نے ریاستی جبر و طاقت استعمال کرکے اور ایک اپوزیشن سیاسی جماعت کا احتجاج روک کر درحقیقت اپنے خلاف پیش کیے جانے والے مقدمہ کے سچ ہونے کی شہادت دی ہے۔ ملک میں احتجاج کا راستہ روک کر اور تحریک انصاف کو اپنے مطالبات سامنے لانے سے انکار کرکے ، موجودہ حکومت پہلے سے کمزور اور بے وقعت ہوئی ہے۔
حیرت انگیز طور پر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کئی دہائیوں سے ملکی سیاست کا حصہ ہیں۔ وہ اگر اقتدار میں رہی ہیں تو انہیں اپوزیشن میں رہنے اور ریاستی جبر کا سامنا بھی رہا ہے۔ 2017 میں ایک عدالتی حکم کے تحت اقتدار سے محروم ہونے کے بعد میاں نواز شریف یہ سوال کرتے ہوئے احتجاج ریلی کے ساتھ اسلام آباد سے لاہور روانہ ہوئے تھے کہ ’مجھے کیوں نکالا‘۔ پھر 2018 کا انتخاب ہوگیا اور اسے تحریک انصاف اور اس کا ساتھ دینے والی اسٹبلشمنٹ نواز پارٹیوں کے علاوہ سب سیاسی قوتوں نے مسترد کردیا۔ عمران خان کو نامزد وزیر اعظم قرار دیا گیا۔ تحریک انصاف کی حکومت ہٹانے کے لیے پاکستان جمہوری تحریک (پی ڈی ایم) کے نام سے ایک سیاسی اتحاد بنایا گیا۔ البتہ اس اتحاد کو اپریل 2022 میں اس وقت پی ٹی آئی کی حکومت گرانے کا موقع ملا جب اسٹبلشمنٹ عمران خان کو بوجھ سمجھتے ہوئے ، اس سے نجات حاصل کرنا چاہتی تھی۔ اسٹبلشمنٹ کو سیاست سے دور رہنے کا مشورہ دینے والے نواز شریف اور آصف زرداری نے پھر اسی عسکری قیادت کا دست و بازو بن کر ملک میں پارلیمانی جمہوریت کو ناکام بنانے میں کردار ادا کیا۔
فروری 2024 میں منعقد ہونے والے انتخابات کے بارے میں تقریباً اتفاق رائے موجود ہے کہ یہ شفاف نہیں تھے۔ یہ سوال اہم نہیں ہے کہ انہیں کس کے حق میں یا کس کے خلاف مینیج کیا گیا۔ اصل نکتہ یہ ہے کہ انتخابی نتائج کو تبدیل کیا گیا اور ان کے نتیجے میں ایسی حکومتیں قائم ہوئیں جن کے بارے میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ مرکز اور پنجاب میں اقتدار سنبھالنے والی مسلم لیگ (ن) خاص طور سے مستفیض ہوئی ۔ پیپلز پارٹی کے پارلیمانی سہارے اور اسٹبلشمنٹ کی خوشنودی پر کھڑی ان حکومتوں نے البتہ جمہوری روایت کا احترام کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ یہاں یہ بحث نہیں ہے کہ تحریک انصاف نے کیسے اور کیوں کر غیر قانونی احتجاج کے ذریعے ملک میں افراتفری پیدا کرنے کی کوشش کی کیوں کہ کسی بھی حکومت کے پاس کسی غیر قانونی اقدام کو روکنے کے لیے طاقت موجود ہوتی ہے۔ ماضی قریب میں اس کا وافر استعمال دیکھنے میں بھی آیا ہے لیکن جس منظم طریقے سے ایک پارٹی کی قوت منتشر کرنے، لیڈروں کو گرفتار اور اس کے سیاسی حقوق مسدود کرنے کے جو طریقے اختیار کیے گئے ہیں، ان سے موجودہ حکومت کا بھرم اور نیک نیتی مشکوک ہوچکی ہے۔ حکومت ضرور امن و امان قائم کرنے کی کوشش کرے لیکن آزادی رائے پر پابندی، خبر کی ترسیل میں رکاوٹ اور سیاسی سرگرمیوں کے بارے میں عدم برداشت کا رویہ درحقیقت ملک میں آئینی جمہوری نظام کے مستقبل پر سوالیہ نشان کھڑے کرتا ہے۔ اسی لیے 8 فروری کو تحریک انصاف کا احتجاج روکنے کے لیے کیے گئے سخت انتظامی اقدامات کو ریاستی و حکومتی جبر کے سوا کوئی دوسرا نام نہیں دیا جاسکتا۔
تجربہ کار اور جہاں دیدہ سیاست دان ہونے کے ناتے شہباز شریف کو بخوبی علم ہونا چاہئے تھا کہ کسی سیاسی احتجاج سے کوئی حکومت تبدیل نہیں ہوتی بلکہ اس سے اس کی جمہوری حیثیت پر مہر تصدیق ثبت ہوتی ہے۔ تحریک انصاف نے انتخابی دھاندلی کے خلاف لاہور میں جلسہ عام منعقد کرنے کی اجازت طلب کی تھی لیکن سکیورٹی وجوہات کی بنا پر اس درخواست کو مسترد کردیا گیا۔ پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز کو بتانا چاہئے کہ لاہور یا پنجاب کے دیگر شہروں میں امن و امان کو ایسا کون سا خطرہ لاحق تھا کہ ملک کی اہم سیاسی جماعت کو ایک علامتی احتجاج کرنے کی اجازت دینا بھی منظور نہیں تھا۔ حالانکہ خیبر پختون خوا اس وقت دہشت گردی کا گڑھ بنا ہؤا ہے اور وہاں روزانہ کی بنیاد پر تشدد کی کارروائیاں دیکھنے میں آتی ہیں لیکن اس کے باوجود صوابی میں جلسہ منعقد کیا گیا اور تحریک انصاف کے لیڈروں نے اس سے خطاب بھی کیا۔ کیا پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت خود کو اس حد تک کمزور اور عوام سے دور سمجھتی ہے کہ ایک احتجاج اس حکومت کے لیے خطرہ بن جاتا؟ وہ کون سا خوف ہے جو مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں کو پریشان کیے ہوئے ہے؟ اگر پارٹی قیادت محسوس کرتی ہے کہ عوام کی حمایت ان کے ساتھ نہیں ہے تو پھر اسے حکومت میں رہنے پر اصرار بھی نہیں کرنا چاہئے۔
تحریک انصاف کی حکمت عملی سے اختلاف کے باوجود ایک جمہوری نظام میں کسی حکومت کو یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ پہلے ریاستی جبرسے سیاسی سرگرمیوں کو ناکام بنائے پھر اس کے نمائیندے فریق مخالف کی ناکامی کا اعلان کرتے ہوئے ایسے بھونڈے دعوے کریں کہ تحریک انصاف کی کال پر ایک دو لوگ بھی گھروں سے نہیں نکلے۔ اگر پی ٹی آئی اتنی ہی غیر مقبول ہے تو پھر جلسے کی اجازت سے انکار، دفعہ 144 کے نفاذ اور گرفتاریوں کے ذریعے ان کے ہاتھ پاؤں باندھنے کی ضرورت کیوں محسوس کی جاتی ہے؟ کیا اس سے تحریک انصاف کی مقبولیت اور حکمران جماعت کی بدحواسی ظاہر نہیں ہوتی؟
انتخابی نتائج مینیج کرنے والوں اور اقتدار سنبھالنے والے لیڈروں کے لیے گزشتہ سال کا 8 فروری دراصل یہ حیران کن پیغام لے کر آیا تھا کہ تحریک انصاف سے اس کا انتخابی نشان چھیننے اور اس کے لیڈر کی گرفتاری اور انتخابی نااہلی کے باوجود پارٹی کے کارکنوں اور ہمدردوں نے درجنوں مختلف انتخابی نشانوں پر تحریک انصاف کی طرف سے انتخاب میں حصہ لینے والے امیدواروں کو کامیاب کرایا۔ لوگوں نے منظم طریقے سے یہ جانا کہ کون سا امید وار پی ٹی کا حمایت یافتہ ہے اور اسی کے نشان کو ووٹ ڈالا گیا۔ پھر بھی اگر یہ مان لیا جائے کہ کوئی دھاندلی نہیں ہوئی اور تحریک انصاف کو وہی سیٹیں ملیں جو ووٹ اسے ملے تھے تو مخصوص سیٹوں کے سوال پر عدالتی فیصلہ کے باوجود اس پر عمل کرنے سے روکنے کی ضرورت کیوں محسوس کی جارہی ہے؟ اگر پاکستان کے لوگ تحریک انصاف کو طاقت ور دیکھنا چاہتے ہیں یا اقتدار میں لانا چاہتے ہیں تو شہباز شریف یا کوئی بھی دوسری طاقت، اس عوامی رائے کو کیسے اور کب تک روک سکتی ہے؟ کیا یہی خوف حکومت کو استبداد کا راستہ اختیار کرنے اور دلیل کی بجائے جبر اور سیاسی مکالمہ کی بجائے ریاستی طاقت میں پناہ لینے پر مجبور کررہا ہے؟
موجودہ سیاسی تصادم میں تحریک انصاف کی ہر بات اور ہر طریقہ درست نہیں ہے لیکن صرف اس ختلاف کی بنیاد پر اس سے سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنے کا حق واپس نہیں لیا جاسکتا۔ شہباز شریف ملکی معیشت کے استحکام کے لیے ملک میں افسوسناک گھٹن کا ماحول پیدا کرنے ہر اصرار کررہے ہیں لیکن یہ ایک ایسا جال ہے جس میں وہ خود پھنس چکے ہیں۔ حکومت کے نیک نیتی سے کیے گئے بعض اقدامات بھی جبر و استبداد کی موجودہ صورت حال میں ناجائز ور مشکوک سمجھے جارہے ہیں۔
ملک کو سیاسی بحران سے نکالنے کے لیے کسی سیاسی پارٹی کا عسکری قیادت کے ساتھ ایک پیج پر ہونے کی بجائے عوام کے ساتھ ہم آہنگ ہونا ضروری ہے۔ موجودہ انتظام اور گزشتہ سال کے انتخابات کے بارے میں اب اتنی بدگمانیاں پیدا ہوچکی ہیں کہ انہیں نئے انتخابات اور نئی حکومت کے قیام کے بغیر دور کرنا مشکل ہے۔ حکومت کو فوری طور سے انتخابات کے آپشن پر غور کرکے اپوزیشن کو انگیج کرنا چاہئے تاکہ پاکستان مسلسل بحران اور بداعتمادی کی فضا میں سانس لینے پر مجبور نہ ہو۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ