لکھاری

جنید جمشید کی یادیں اور ریکارڈ کی درستی ۔۔ شاہد مسعود

شاہد مسعود  پی ٹی وی کے سابق ایگزیکٹو پروگرام مینیجر ہیں‌
۔۔۔۔۔
یہ 1986 کے اوائل کا ذکر ہے کہ اسلام آباد کے ایک لڑکیوں کے کالج میں ایک کنسرٹ ہُوا، جس میں وائیٹل سائنز نے پرفارم کیا۔ یہ لوگ اُن دنوں صرف انگریزی کے گانے گایا کرتے تھے۔ ایک لڑکی، جس کا نام رعنا کنول تھا، اپنی سہیلیوں کے ساتھ، کنسرٹ سُننے کے لئے وہاں موجود تھی۔ اُسے اِس بینڈ نے اتنا متاثر کیا کہ یہ لوگ اُس کے آرٹسٹک ذہن پہ نقش ہو گئے۔ وقت گزرتا گیا اور اس لڑکی کو قائدِ اعظم یونیورسٹی سے ماسٹرز کرنے کے بعد، اِسی سال (1986 میں ) پی ٹی وی میں اسسٹنٹ پروڈیوسر کی نوکری مل گئی۔ یوں اُسے پی ٹی وی اکیڈمی میں، ٹی وی کی بُنیادی ٹریننگ کے لئے بھیج دیا گیا۔ جب ٹریننگ کے آخری مرحلے میں، فائینل پراجیکٹ بنانے کا وقت آیا، تو اِس لڑکی نے سوچا، کہ کیوں نہ وائیٹل سائنز کا ایک گانا کیا جائے۔ اُس نے پروین شاکر کی ایک غزل چُنی اور جنید اور اُس کے بینڈ نے اس کی دھُن بنائی۔ “یہ وائیٹل سائنز کی پہلی وِڈیو تھی”، لیکن اِسے کوئی نہیں جانتا، کیونکہ یہ پی ٹی وی اکیڈمی کا ایک پروجیکٹ ہونے کے ناطے، ٹیلی کاسٹ نہیں کی گئی۔ اور یہ بھی کوئی نہیں جانتا کہ ٹی وی کے لئے وائیٹل سائنز کو دریافت کرنے کا سہرا بھی رعنا کنول ہی کے سر ہے، کسی اور کے نہیں۔ یہ سال تھا 1986 کا آخر۔ جب یہ گانا پی ٹی وی اکیڈمی کے لئے پروڈوس ہو رہا تھا، تو اُن دنوں شعیب منصور وہاں انسٹرکٹر تھے۔ یوں پہلی دفعہ شعیب کا تعارف وائیٹل سائنز سے ہُوا۔ وقت گزرتا گیا اور شعیب منصور کا تبادلہ راولپنڈی/ اسلام آباد سینٹر ہو گیا۔ 1987 کا 14اگست جب قریب آیا تو پی ٹی وی نے اپنے سب سینٹرز کے درمیان قومی نغموں کا ایک مقابلہ کروانے کا ارادہ کیا۔ راولپنڈی/ اسلام آباد سینٹر سے شعیب منصور کو نغمہ پروڈیوس کرنے کے لئے کہا گیا۔ اُس نے سوچا کہ کیوں نہ وائیٹل سائنز سے قومی نغمہ کرنے کا تجربہ کیا جائے !! چنانچہ، رعنا کنول کے توسط سے، جُنید اینڈ پارٹی کو بُلایا گیا۔ میں وہاں موجود تھا، جب یہ لوگ پہلی مرتبہ ٹی وی سینٹر آئے۔ جنید، شاہی، روہیل حیات، اور دو اور۔
جنید، وجیہ تو تھا ہی، لیکن شرمیلا بھی۔ اُس کے چہرے پہ جو خوبصورت مُسکراہٹ، اُس دن میں نے دیکھی، وہ آخری دم تک اُس کے چہرے کا حصہ رہی۔ میں نے اُسے انتہائی نفیس اور اچھا انسان پایا۔ وہاں سے دوستی اور برخوارداری کا ایک ایسا تعلق قائم ہُوا، جو اُس کی موت بھی ختم نہیں کر سکی۔
اُن دنوں شعیب منصور کا میں واحد دوست ہُوا کرتا تھا۔ اُس نے مُجھ سے مشورہ کیا، کہ کس شاعر سے یہ نغمہ لکھوایا جائے ؟ میں نے نہ صرف نثار ناسک کا نام لیا، بلکہ اُسے بُلوا کے ملوا بھی دیا۔ یہاں ایک اور بات کی گواہی دیتا چلوں، کہ اس نغمے کی شاعری میں شعیب کا حصہ، اگر زیادہ نہیں، تو کم از کم آدھا ضرور ہے۔ نغمے کا مُکھڑا، البتہ، پورے کا پورا نثار ناسک کا ہی لکھا ہُوا ہے۔
اِس نغمے کے ٹیلی کاسٹ ہُونے سے جنید جمشید کا عروج اور شعیب منصور سے اُس کی ایک لمبی پارٹنرشپ کا آغاز ہُوا، جو سب جانتے ہیں۔
جُنید سے میری ملاقاتیں، اُس کی زندگی کے دونوں ادوار میں جاری رہیں۔ وہ ایک الگ داستان ہے۔ لیکن مذہبی ہونے کے بعد کا ایک واقعہ ضرور سُنانا چاہتا ہُوں۔ جب جنید نے اسلام آباد میں اپنی پروڈکٹس کا پہلا آوٹ لیٹ کھولا، تو اُس نے مُجھے اور میری بیوی کو بھی مدعو کیا۔ یہ سپر مارکیٹ میں تھا۔ وہاں ہمارے ایک پُرانے دوست کی دکان تھی جو ” عالم اینڈ کو ” کے نام سے تھی۔ اس دو منزلہ دوکان کے نچلے حصے میں جنید نے دوکان کھول لی، اور عالم اینڈ کو، صرف اُوپر والی منزل میں شفٹ ہو گئی۔
مُنیر نیازی کے برعکس، جو ہمیشہ دیر کر دیتے تھے، میں عادتاً، مقررہ وقت سے پہلے ہی پہنچ جاتا ہوں۔ سو اُس دن بھی یہی ہُوا۔ دوکان کے افتتاح کے سلسلے میں پہنچنے والا، میں پہلا مہمان تھا۔ جنید، عالم اور میں outlet کے باہر کھڑے، مہمانوں کا انتظار کر رہے تھے اور عالم مُجھے، اپنے اور جنید کے درمیان ہونے والی arrangement کے بارے میں بتا رہا تھا کہ وہ خود اُوپر شفٹ ہو گیا ہے، اور دوکان کا نچلا حصہ اُس نے جنید کو دے دیا ہے۔ میں نے عالم کو مشورہ دیا کہ، میرے خیال میں، اب اُسے اپنی دوکان کا نام، عالم اینڈ کو کی بجائیے، ” عالمِ بالا ” رکھ لینا چاہئے۔ اِس پر جنید نے ایک ایسا قہقہہ لگایا کہ مارکیٹ میں لوگ مُڑ مُڑ کے اُس کی طرف دیکھنے لگے۔ لیکن اس قہقہے کے دوران ہی جیسے جنید کو آخرت کا خیال آ گیا ہو، اُس کی آنکھوں میں ایک ہلکی سی نمی کی لکیر نمودار ہُوئی، اور وہ کُچھ دیر کے لئے خاموش ہو گیا۔ گُداز، شروع ہی سے اُس کے اندر کُوٹ کُوٹ کے بھرا تھا۔
ہمارے ہاں بہت سے لوگوں کو وہ جنید جمشید اچھا لگتا ہے، جو ایک پاپ سنگر تھا، اور کُچھ لوگوں کو وہ جنید اچھا لگتا ہے، جو ایک تبلیغی تھا۔ مُجھے دونوں جنید جمشید اچھے لگتے ہیں، کیونکہ اِن دونوں ادوار میں ایک چیز مشترک رہی، اور وہ یہ کہ، وہ پہلے بھی ایک اچھا، مخلص اور humble انسان تھا، اور بعد میں بھی، ( مذہبی ہو جانے کے باوجود )، وہ ایک اچھا، مخلص اور humble انسان ہی رہا۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اُس لڑکی، رعنا کنول کا کیا بنا !! تو اُس بیچاری نے اپنے ایک Senior colleague سے شادی کر لی، اور رعنا کنول سے کنول مسعود ہو گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: شعیب منصور کے زبردست ڈائریکٹر ہونے میں کوئی دو آرا نہیں، لیکن اگر دل دل پاکستان کی visualisation میں آپ کو رعنا کنول کے پروڈیوس کئے گئے گانے کی کُچھ جھلک نظر آئے، تو اُس خاتون کے تخلیقی ذہن کو ضرور داد دیجئے گا۔

فیس بک کمینٹ

متعلقہ تحریریں

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker