ملتان ہزاروں سال کی زندہ تاریخ کا گواہ اور روایات کا امین ہے۔ تقریباًپانچ ہزار سال سے مسلسل آباد چلا آنے والا شہر اپنی تاریخ کو مسخ اور منہدم ہوتے ہوئے دیکھ رہا ہے۔ ملتان کے دروازے اور قدیم دیوار، ریلوے اسٹیشن اور ضلع کچہری چند باغات اور لانگے خان لائبریری صدیوں کے مد و جذر کے گواہ ہیں مگر تاریخ کو مسخ کرنے کے جدید ٹھیکیداروں نے ارتقاءکے نام پر ملتان کے زیروپوائنٹ کو منہدم کرنے کا فیصلہ چند لینڈ مافیا زکی طرف سے پرُکشش مراعات کے لالچ میں کیا تو کچھ احتجاج سامنے آیا ۔ لینڈ مافیاز نے وکلاءلیڈروں کو پلاٹوں کی سلامی پیش کرکے رام کر لیا اور کچہری سے تمام ریکارڈ رات کے اندھیرے میں گھر سے بھاگنے والی دوشیزہ کی طرح سات پردوں میں لپیٹ کر شہر سے میلوں دور منتقل کر دیا گیا۔ اور14نومبر کو ملتان کے عوام کے مقدمات کے فیصلے168سال بعد متی تل روڈ پر ہونے لگے۔ ملتان ہزاروں سال کی زندہ تاریخ کا گواہ اور روایات کا امین ہے۔ تقریباًپانچ ہزار سال سے مسلسل آباد چلا آنے والا شہر اپنی تاریخ کو مسخ اور منہدم ہوتے ہوئے دیکھ رہا ہے۔ ملتان کے دروازے اور قدیم دیوار، ریلوے اسٹیشن اور ضلع کچہری چند باغات اور لانگے خان لائبریری صدیوں کے مد و جذر کے گواہ ہیں مگر تاریخ کو مسخ کرنے کے جدید ٹھیکیداروں نے ارتقاءکے نام پر ملتان کے زیروپوائنٹ کو منہدم کرنے کا فیصلہ چند لینڈ مافیا زکی طرف سے پرُکشش مراعات کے لالچ میں کیا تو کچھ احتجاج سامنے آیا ۔ لینڈ مافیاز نے وکلاءلیڈروں کو پلاٹوں کی سلامی پیش کرکے رام کر لیا اور کچہری سے تمام ریکارڈ رات کے اندھیرے میں گھر سے بھاگنے والی دوشیزہ کی طرح سات پردوں میں لپیٹ کر شہر سے میلوں دور منتقل کر دیا گیا۔ اور14نومبر کو ملتان کے عوام کے مقدمات کے فیصلے168سال بعد متی تل روڈ پر ہونے لگے۔ کچہری کسی بھی شہر کی تہذیب و تمدن ، روایات اور احساسا ت کی آئینہ دار ہوتی ہے۔جہاں ہزاروں لوگ روزانہ بے نقاب ہوتے ہیں اور کتنے شرفاءکے چہروں سے پردہ اٹھتا ہے۔ ملتان کی یہ کچہری1849ءمیں معرض وجود میں آئی اور انگریز نے صوبہ، ڈویژن اور اضلاع کے لئے عہدیدار متعین کیے۔ بورڈ آف ایڈمنسٹریشن ، کمشنر ، ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر ، ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر اور کاردار تعینا ت ہوئے۔ ملتان کی یہی کچہری 1853کے بعد ہنری لارنس کے حکم پر یوں بھی اہمیت اختیار کر گئی کہ ملتان کی کچہری میں ملتان کے علاوہ جھنگ، لائل پور(فیصل آباد) ، لیہ، راجن پور، ساہیوال، مظفر گڑھ ، ڈیرہ غازیخان، لودھراں اور خانیوال کے علاقے شامل تھے۔ اور ان تمام علاقوں سے لوگ ملتان کچہری آتے تھے۔ سکھ راج کے خاتمے پر کمشنر ملتان کی تعیناتی کے سلسلے میں رسہ کشی رہی اور1949میں ایم پی ایچ ورتھ ملتان کے پہلے کمشنر تعینات ہوئے۔ 1914میں ڈویژنل کورٹس ختم کرکے اس مقام پر ڈسٹرکٹ جج ، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج ، سول جج کی عدالتیں قائم ہیں۔ ملتان میں ڈپٹی کمشنر کے عہدے کی ابتداء 1949میں ہوئی تو ملتان کا پہلا ڈپٹی کمشنر لیفٹیننٹ جیمز تھا بعد ازاں فارن کورٹ سی ایجئن ای آر ایبٹ ڈپٹی کمشنرملتان رہے۔ پہلےہندوستانی ڈپٹی کمشنر دیوان بہادر ناتھ چار بار ملتان کے ڈپٹی کمشنر تعینات رہے۔ اسی ضلع کچہری میں وکلاءکی ضرورت کے پیش نظر ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن ملتان کا قیام1901ء میں عمل میں آیا ۔ اس وقت وکلاء عدالتوں کے سامنے ایک بوہڑ کے درخت کے نیچے چارپائیوں پر بیٹھ کر فرائض منصبی سرانجام دیتے تھے۔ 1913 میں ڈسٹرکٹ بار ہال کی تعمیر کی گئی۔1901میں ڈسٹرکٹ بار ملتان کے پہلے اجلاس میں لال ہر مانند بگالی ، عمر بخش بابا، بیرسٹر عبدالرحمن، ڈاکٹر نندلال لالہ کاشی ڈاکٹر صدر الدین ، لالہ موتی لال، ہر نیک چند نے شرکت کی تھی۔ ملتان کچہری اپنے اندر ایک تاریخ لئے ہوئے ہے مگر اب 168سال بعد نہ ملتان شہر کی تاریخ کی لاج رکھی گئی اور نہ ہی وکلاءکے کالے کوٹ کا احترام کیا گیا۔ اور اب1901کی طرح ایک بار پھر وکلاءکو کھلے آسمان تلے چارپائیاں بچھانے پرمجبور کر دیا گیا ہے۔ 1901ءمیں تو بوہڑ کا درخت وکلاءپر سایہ فگن تھامگر اب وہ بھی نہیں رہا چند پراپرٹی مافیاز کی کالونیوں کے پلاٹ فروخت کروانے کے لئے تاریخ کو مسخ کرنے والوں کو تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔ ڈسٹرکٹ بار میں کچہری کی منتقلی کے خلاف قراردادیں منظور کرنے والوں نے آخری وقت تک اپنے ساتھیوں کو اندھیرے میں رکھا۔ آج وکلاءکے ساتھ ساتھ پورا شہر دربدر ہے۔ نئی کچہری میں وکلاءکے ساتھ ساتھ سائیلین کی بھی توہین ہے۔ وہاں پانی ہے اور نہ ہی بیٹھنے کی کوئی جگہ لیٹرین ہے اور نہ ہی کوئی سایہ، انصاف کو مہنگا کرنے والوں نے اب حصول انصاف کے لئے آنے والوں کے لئے ذلت کے بھی کئی در کھول دیئے ہیں۔ سرمایہ دار لینڈ مافیاز جیت گئے۔ تاریخ وتمدن ، ثقافت اور عوام ہا رگئے۔ وکلاءکو 1901کی طرح2017میں کھلے آسمان تلے بیٹھنا مبارک ہو۔
فیس بک کمینٹ