تعلیمی ادار ے بھی محفوظ نہیں رہے تو بچو ں کو کہاں بھیج کر امان پائی جائے یا محسوس کی جائے۔ سمسٹر سسٹم نے براہ راست طالبات کو اپنے پروفیسرز اور لیکچررز کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا اور اس استاد کے مقدس نام اور پیشے کو اپنی ہوس کے پلڑے میں بے وزن کرنے والے ”پروفیسرز“ یونیورسٹی کو بازار حسن سمجھ کر بہنوں اور بیٹیوں کی عزتوں کو نمبروں میں تولنے لگے ۔ رواں برس کے پہلے مہینے سے اس دسمبر تک مختلف شعبوں میں زیر تعلیم طالبات کی تعداد انیس ہے جنہیں ان کے ”روحانی باپ“ نے ہراساں کیا یا پھر زیر دام کرنے کی کوشش کی اور یہ تعداد بھی صرف ان طالبات کی ہے جو ظلم کے خلاف بول اٹھیں ورنہ ”خاموش“ رہنے والی طالبات اس سے کہیں زیادہ ہیں۔
کلاس میں منظور نظر بننے کی خواہش مندی سے لے کر ”صوابدیدی“ نمبروں کے حصول تک یونیورسٹیوں میں ”بازار مصر“سجا ہے ۔ زکریا یونیورسٹی ملتان کے اس باز ار میں ابھی مرجان کے آنسوؤں کی نمی باقی تھی کہ ایک اور ”اجمل مہار “ شہ سرخیوں میں آگیا ۔ والدین جو بیٹی کی پیدائش سے پرورش تک نڈھال ہوچکے ہوتے ہیں اب تعلیمی اداروں کے نام سے ہی گھبرانے لگے ہیں اور حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جنسی درندوں کو اپنے اعلیٰ افسروں کی چھتری بھی حاصل ہوجاتی ہے ۔ ” پروفیسر“ اجمل مہار کو سرکاری چھتری فراہم کرنے والے شاید اس سے ”حصہ “ بھی وصول کرتے تھے۔ گزشتہ دنوں دن دیہاڑے پروفیسر واصف نعمان کو اغواءاور پھر تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔ 5ملزم طلبہ بھی گرفتار ہوئے مگر چند گھنٹوں میں ہی کہانی کا اصل رخ سامنے آگیا۔ شعبہ ایگریکلچر کا یہ بے مہار پروفیسر بھی ”اجمل مہار“ سکول آف تھاٹ کا ”استاد“ تھا اسی لئے اس نے مقدمہ کا مدعی بننے سے انکار کردیا۔ ملزم طلبہ اسی پروفیسر کی ”حرکات و سکنات “ کی شکایات صدرشعبہ اور دیگر بااختیار افسران کو نوٹ کراچکے تھے جب انہیں سب برابر کے شریک نظر آئے تو انہوں نے پروفیسر کو صرف اس لئے اٹھایا کہ اس کے قبضے سے وہ موبائل فون سیٹ برآمد کیا جائے جس میں وہ ریکارڈنگ تھی جسے وہ بلیک میلنگ کےلئے استعمال کرتا تھا ۔ ایک معذور طالبہ بھی اس کا شکار ہوئی تھی۔
انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی این جی اوز اور عورتوں کے حقوق کے نام پر ڈالر وصول کرنے والی تنظیمیں نہ جانے کیوں خاموش ہیں۔ ہاسٹل میں رہائش پذیر معذور طالبہ کو ایک پی ایچ ڈی خاتون پروفیسر نے تشدد کا نشانہ بھی بنایا اور اس سے موبائل فون چھین کر وہ ڈیٹا بھی صاف کردیا جو پروفیسر واصف نعمان کے خلاف ایک شہادت کے طور پر پیش کیا جاسکتا تھا۔ اپنے گناہوں سے خود خوف زدہ پروفیسر اپنے اغواءکے وقوعہ کا مدعی بننے پر تیار نہ تھا کہ بات چل نکلی تو نہ جانے کن کن پردہ نشینوں کے نام آئیں گے۔
معلوم ہوا ہے کہ وہ تمام لیکچرار اور استاد جو اسی درندگی کلاس سے تعلق رکھتے ہیں انہوں نے اپنے موبائل فون صاف کرالئے ۔تعلیمی ادارے جو اب سمسٹر سسٹم میں پروفیسرز اور لیکچرار کو صوابدیدی اختیار دے چکے انہوں نے تعلیم کے امتحانی نظام اور استاد شاگرد کے روایتی تقدس کو پامال کرکے رکھ دیا ۔ چند ماہ پہلے علی رضا نامی ایک نوجوان کا سکینڈل ایک طالبہ مرجان کے ساتھ سامنے آیا جس میں پروفیسر اجمل مہار ملوث پائے گئے ۔ علی رضا شہر کے ایک بااثر اور مالدار شخص کی اولاد ہونے کی وجہ سے ضمانت پر رہا ہوچکا ہے ۔ عدالت بار بار مرجان کو گواہ پیش کرنے کے نوٹس کررہی ہے مگر وہ اور اس کے والدین اپنی عزت کی مزید نیلامی سے بچنے کےلئے شاید شہر بھی چھوڑ گئے مگر پروفیسر اجمل مہار کو کوئی خاطر خواہ سزا نہ مل سکی کہ اس کی پشت پر پورا ادارہ سینہ تان کر کھڑا تھا۔
شعبہ انگلش اور میڈیا سٹڈیز کے واقعات بھی عزت بچاؤمہم کی وجہ سے منظر عام پر نہ آسکے ۔چھ سال پہلے بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان شعبہ سائیکالوجی کی ایک ٹیچر نے اخبارات کو خطوط بھیجے تھے جن کی ایک ایک سطر موجودہ حالات کی گواہی ہے ،”کہ اللہ کا واسطہ لوگوں سے کہیں کہ اپنی بیٹیاں یونیورسٹی نہ بھیجیں وہاں استاد نہیں درندے ہیں“۔ پچھلے کچھ سالوں سے سمسٹر سسٹم کی وجہ سے ایسے واقعات میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے ۔ منظر عام پر صرف چند واقعات آتے ہیں یونیورسٹی کے چالیس پروفیسرز کے خلاف ہراسمنٹ کی شکایات زیر سماعت ہیں اور ایسی درجنوں لڑکیاں جو شکایات درج کرائے بغیر یاتو خودکشی کرگئیں یا پھر شہر چھوڑ گئیں وہ واقعات میڈیا تک نہیں پہنچ سکے اور بہت سے ایسے واقعات تو والدین نے اپنی بدنامی کے ڈر سے خود چھپائے۔سمسٹر سسٹم کی وجہ سے استاد خود کو فرعون سمجھنے لگے ہیں کہیں کہیں لڑکیاں بھی قصور وار ہوں گی مگر یہ پڑھے لکھے ذہنی مریضوں نے تعلیمی ماحول کو خراب کرنے میں مرکزی کردار اداکیا ہے۔چند دن پہلے ایک طالبہ کی یہ شکایت بھی ریکارڈ ہوئی کہ ان کا پروفیسر کلاس میں موجود ہر لڑکی کو ”میری جان“ کہہ کر بلاتا ہے ۔شکایت کے باوجود صدر شعبہ الٹا شکایت کنندہ کو ہی قصور وار ٹھہرا کر ڈیپارٹمنٹ سے نکال دینے یا فیل کردینے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ شراب کی بوتل پر سو موٹو لینے والے ادارے اس مادرِ علمی کو بچانے کےلئے نہ جانے کب از خود نوٹس لیں گے؟
کلاس میں منظور نظر بننے کی خواہش مندی سے لے کر ”صوابدیدی“ نمبروں کے حصول تک یونیورسٹیوں میں ”بازار مصر“سجا ہے ۔ زکریا یونیورسٹی ملتان کے اس باز ار میں ابھی مرجان کے آنسوؤں کی نمی باقی تھی کہ ایک اور ”اجمل مہار “ شہ سرخیوں میں آگیا ۔ والدین جو بیٹی کی پیدائش سے پرورش تک نڈھال ہوچکے ہوتے ہیں اب تعلیمی اداروں کے نام سے ہی گھبرانے لگے ہیں اور حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جنسی درندوں کو اپنے اعلیٰ افسروں کی چھتری بھی حاصل ہوجاتی ہے ۔ ” پروفیسر“ اجمل مہار کو سرکاری چھتری فراہم کرنے والے شاید اس سے ”حصہ “ بھی وصول کرتے تھے۔ گزشتہ دنوں دن دیہاڑے پروفیسر واصف نعمان کو اغواءاور پھر تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔ 5ملزم طلبہ بھی گرفتار ہوئے مگر چند گھنٹوں میں ہی کہانی کا اصل رخ سامنے آگیا۔ شعبہ ایگریکلچر کا یہ بے مہار پروفیسر بھی ”اجمل مہار“ سکول آف تھاٹ کا ”استاد“ تھا اسی لئے اس نے مقدمہ کا مدعی بننے سے انکار کردیا۔ ملزم طلبہ اسی پروفیسر کی ”حرکات و سکنات “ کی شکایات صدرشعبہ اور دیگر بااختیار افسران کو نوٹ کراچکے تھے جب انہیں سب برابر کے شریک نظر آئے تو انہوں نے پروفیسر کو صرف اس لئے اٹھایا کہ اس کے قبضے سے وہ موبائل فون سیٹ برآمد کیا جائے جس میں وہ ریکارڈنگ تھی جسے وہ بلیک میلنگ کےلئے استعمال کرتا تھا ۔ ایک معذور طالبہ بھی اس کا شکار ہوئی تھی۔
انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی این جی اوز اور عورتوں کے حقوق کے نام پر ڈالر وصول کرنے والی تنظیمیں نہ جانے کیوں خاموش ہیں۔ ہاسٹل میں رہائش پذیر معذور طالبہ کو ایک پی ایچ ڈی خاتون پروفیسر نے تشدد کا نشانہ بھی بنایا اور اس سے موبائل فون چھین کر وہ ڈیٹا بھی صاف کردیا جو پروفیسر واصف نعمان کے خلاف ایک شہادت کے طور پر پیش کیا جاسکتا تھا۔ اپنے گناہوں سے خود خوف زدہ پروفیسر اپنے اغواءکے وقوعہ کا مدعی بننے پر تیار نہ تھا کہ بات چل نکلی تو نہ جانے کن کن پردہ نشینوں کے نام آئیں گے۔
معلوم ہوا ہے کہ وہ تمام لیکچرار اور استاد جو اسی درندگی کلاس سے تعلق رکھتے ہیں انہوں نے اپنے موبائل فون صاف کرالئے ۔تعلیمی ادارے جو اب سمسٹر سسٹم میں پروفیسرز اور لیکچرار کو صوابدیدی اختیار دے چکے انہوں نے تعلیم کے امتحانی نظام اور استاد شاگرد کے روایتی تقدس کو پامال کرکے رکھ دیا ۔ چند ماہ پہلے علی رضا نامی ایک نوجوان کا سکینڈل ایک طالبہ مرجان کے ساتھ سامنے آیا جس میں پروفیسر اجمل مہار ملوث پائے گئے ۔ علی رضا شہر کے ایک بااثر اور مالدار شخص کی اولاد ہونے کی وجہ سے ضمانت پر رہا ہوچکا ہے ۔ عدالت بار بار مرجان کو گواہ پیش کرنے کے نوٹس کررہی ہے مگر وہ اور اس کے والدین اپنی عزت کی مزید نیلامی سے بچنے کےلئے شاید شہر بھی چھوڑ گئے مگر پروفیسر اجمل مہار کو کوئی خاطر خواہ سزا نہ مل سکی کہ اس کی پشت پر پورا ادارہ سینہ تان کر کھڑا تھا۔
شعبہ انگلش اور میڈیا سٹڈیز کے واقعات بھی عزت بچاؤمہم کی وجہ سے منظر عام پر نہ آسکے ۔چھ سال پہلے بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان شعبہ سائیکالوجی کی ایک ٹیچر نے اخبارات کو خطوط بھیجے تھے جن کی ایک ایک سطر موجودہ حالات کی گواہی ہے ،”کہ اللہ کا واسطہ لوگوں سے کہیں کہ اپنی بیٹیاں یونیورسٹی نہ بھیجیں وہاں استاد نہیں درندے ہیں“۔ پچھلے کچھ سالوں سے سمسٹر سسٹم کی وجہ سے ایسے واقعات میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے ۔ منظر عام پر صرف چند واقعات آتے ہیں یونیورسٹی کے چالیس پروفیسرز کے خلاف ہراسمنٹ کی شکایات زیر سماعت ہیں اور ایسی درجنوں لڑکیاں جو شکایات درج کرائے بغیر یاتو خودکشی کرگئیں یا پھر شہر چھوڑ گئیں وہ واقعات میڈیا تک نہیں پہنچ سکے اور بہت سے ایسے واقعات تو والدین نے اپنی بدنامی کے ڈر سے خود چھپائے۔سمسٹر سسٹم کی وجہ سے استاد خود کو فرعون سمجھنے لگے ہیں کہیں کہیں لڑکیاں بھی قصور وار ہوں گی مگر یہ پڑھے لکھے ذہنی مریضوں نے تعلیمی ماحول کو خراب کرنے میں مرکزی کردار اداکیا ہے۔چند دن پہلے ایک طالبہ کی یہ شکایت بھی ریکارڈ ہوئی کہ ان کا پروفیسر کلاس میں موجود ہر لڑکی کو ”میری جان“ کہہ کر بلاتا ہے ۔شکایت کے باوجود صدر شعبہ الٹا شکایت کنندہ کو ہی قصور وار ٹھہرا کر ڈیپارٹمنٹ سے نکال دینے یا فیل کردینے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ شراب کی بوتل پر سو موٹو لینے والے ادارے اس مادرِ علمی کو بچانے کےلئے نہ جانے کب از خود نوٹس لیں گے؟
فیس بک کمینٹ