کسی کو عزت راس نہ آرہی ہو اور وہ بے آبرو ہوکر کوچہ یار سے نکلنا چاہے تو مفادات کی سیاست کے بازار میں چاک گریبان کیے آنکلے ، بہت جلد بے آبرو ہوجائے گا اور بے نقاب بھی۔اور پھر سید نہ ہوتے ہوئے بھی کہتا پھرے گا ۔
اس عاشقی میں عزتِ سادات بھی گئی
کہیں کوئی نظریہ ہے اور نہ ہی سیاسی عقیدہ ، کوئی معیار بھی سیاست دان اپنے لئے برقرار نہیں رکھ سکے اسی لئے اقتدار کی چند لوریوں کے بعد رسوائی اور ملامتیں ان کا مقدر بنیں ۔ قائداعظم کی بات اور ہے کہ ہم نے نہ تو ان کا زمانہ دیکھا اور نہ کوئی سچی تحریر۔
ایک رہنما نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ عوام کولوٹنے والے کا پیٹ پھاڑ کر ملکی دولت نکالے گا۔ دوسرے نے آوازہ کسا ”اے لٹیرے تجھے میں نے گریبان سے پکڑ کر لاہور کی سڑکوں پر نہ گھسیٹا تو میرا نام شہباز شریف نہیں“ ایک پہاڑی سیاست دان نے نعرہ مستانہ لگایاکہ ” قوم کے ذہنوں کو زنگ آلود کرنے والی جماعت ، جماعت اسلامی ہے “ ۔ پھر منصورہ سے آواز آئی کہ اقتدار کے لئے پیپلز پارٹی جیسی کرپٹ جماعت سے کبھی کوئی بات چیت نہیں ہوگی۔ پھر ایک بظاہر نظریاتی جماعت نے سندھ کی بڑ ی پارٹی کو گندی اور ننگی گالیوں سے نوازا ۔
اسد عمر کا خطاب کون بھلا سکتا ہے کہ ” دہشت گرد جماعت ایم کیو ایم سے اتحاد ہوا تو پی ٹی آئی کو چھوڑ دوں گا“ ہم سب کے لاڈلے عمران خان بھی تو شیخ رشید کے اندازِ سیاست کو شیطانی سیاست کہتے رہے۔ شیخ رشید پی ٹی آئی کو تانگہ پارٹی کا خوبصورت مونو گرام دے چکے ۔اب حالات بدلے تو پھر یوں ہوا
اپنے اپنے بے وفاﺅں نے ہمیں یکجا کیا
ورنہ تو میرا نہیں تھا اور تُو میرا نہ تھا
سب وعدے ، سب تقریریں اور سب نظریے دھرے کے دھرے رہ گئے،مفادات جیت گئے۔ اب مفادات کے لئے سیاسی جماعتوں کے ہجوم نما اجلاس میں کئی راجہ گدھ قوم کو ملکی مفاد کی نئی لغت سمجھاتے نظر آتے ہیں ۔ نحوست زدہ چہروں والے خود کو پھر قبولِ عام بنانے کے لئے پیٹ درد کا پرانا سفوف نئی پیکنگ میں بیچنے کی کوشش میں لگے ہیں۔
تحریکِ انصاف نے ایم کیو ایم کو شریکِ اقتدار کرلیا۔ جماعت اسلامی نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی میزبان ہے۔ اسد عمر اپنے جھوٹ کو نئے مفاہیم دینے کی کوشش میں گھوڑے سے گر گئے ہیں ۔ بلاول بھٹو کا وراثتی نظریہ اب حالتِ نزع میں ہے کہ نہ جانے یہی ہچکی آخری ہو کیونکہ
شب نے لی آخری ہچکی تو سویرا ہوگا
اچکزئی بھی تو اپنا تھوکا چاٹنے پر لگے ہیں ۔شیخ رشید اسی تانگہ پارٹی کے کوچوان ہیں اور بے لگام گھوڑے کو قابو کرنے کے دعویدار بھی ۔
آزاد ارکان کی سودے بازی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔ وزارتوں کی نیلامی کے لئے بولیاں جاری ہیں۔ اپوزیشن کے سارے حوالے غیر معتبر ہوئے جاتے ہیں۔ سیاست کے کوٹھے پر سب طوائفیں ننگ دھڑنگ رونق بازار ہیں اور سب کے ماتھے پر ایک کتبہ سجا ہے کہ ”کوئی نظریہ نہیں،کوئی خدمت نہیں، کوئی دایاں بازو نہیں، کوئی بایاں بازو نہیں اگرکوئی چیز مقدم ہے تو وہ ہے اقتدار‘ ‘ جب بات اپنے اپنے مفادات کی ہو تو اصولوں ،نظریوں اور فلسفوں کو کچل دینے کا دوسرا نام ہے پاکستان کی سیاست ۔ وقت کے ساتھ ساتھ بے نقاب ہونے والے راجہ گدھ اپنے مشترکہ دشمن عمران کو مشکل میں ڈالنے کے لئے ایک صف میں کھڑے نعرہ منافقانہ بلند کررہے ہیں۔ دوسری طرف عمران خان اقتدار کی راہیں ہموار کرنے کے لئے وہ سب کچھ چاٹ رہے ہیں جنہیں ماضی میں وہ پچکاری کے ساتھ تھوکتے رہے کیونکہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہوتا ہے اور یہاں اقتدار سے محبت اور نظریات کے خلاف جنگ جاری ہے۔ اس جنگ میں جیت اور ہار کسی کا بھی مقدر بنے دونوں صورتوں میں نقصان عوام کا ہے۔ دونوں طرف فریقین اپنے اپنے مفادات کے لئے ہر اصول اور عقیدے کو روندتے چلے آرہے ہیں ۔ ایک چیز مشترک ہے اور وہ ہے عوام کے مسائل کا مسلسل نظر انداز ہونا ۔ ”مجھے کیوں نکالا؟“ سے لے کر” ووٹ کو عزت دو“ کے نعروں تک کہیں عوام کا مفاد موجود نہیں اور اب آزاد امیدواروں کی بولی سے لیکر وزارتِ عظمی کے حلف تک عوام سے کوئی وعدہ بھی نہیں۔
فیس بک کمینٹ