آئین کے سامنے کوئی طاقتور نہیں اور قانون بہرحال بالاتر ہے ۔ نواب اکبر بگٹی کے لئے مجرم پرویز مشرف کے الفاظ سب کو یاد ہونگے کہ ” اسے پتہ بھی نہیں چلے گا کہ ہٹ کس طرف سے کیا گیا“ اور پھر اسے ہٹ کردیا گیا۔ ”پرویز مشرف کو دس بار صدر منتخب کرائیں گے“ والے اس کے سفید ہاتھی نما ساتھی اب بھی حکومت میں ہیں مگر خاموش؟ مجرم مشرف کےلئے آسانیاں تلاش کرنے والی زبیدہ جلال موجودہ حکومت میں وزیر ہیں مگر چپ؟ مجرم مشرف کے ترجمان شیخ رشید موجودہ حکومت کی ریل گاڑی چلاتے ہیں مگر بے بس؟ مجرم مشرف کے دست راست فواد چوہدری وزیر اعظم خان کے قریب ترین وزیر ہیں مگر بے کار؟ مجرم مشرف کے بہت سے ساتھی حکومت میں ہونے کے باوجود برسے ہوئے بادل کی طرح بے کار ہیں کیونکہ قانون کا جادو سرچڑھ کر بول رہا ہے اور بلاخوف تردید بو ل رہا ہے۔
شدید غم و غصہ کا اظہار کرنے والے کاش منتخب حکومتو ں کے ٹوٹنے پر بھی شدید غم و غصہ کا اظہار کرتے ۔ کاش اس وقت بھی کہاجاتا کہ جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے میں عجلت اور جلد بازی سے کام لیا گیا ، کاش منتخب وزیر اعظم کو فیئر ٹرائل سے پہلے نا اہل کرنے پر بھی شدید غم و غصہ والا ردعمل سامنے آتا، قومی سطح پر مقبول سیاسی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی پر بھی تعزیتی بیانیہ سامنے آجاتا ، کاش سیاستدانوں کو غداری کا تمغہ دینے والوں کے خلاف بھی کوئی ردعمل آتا، کاش بانی پاکستان کے سرکاری قتل کے پیچھے چھپے ہاتھ سے دستانے اتارے جاسکتے اور کوئی شدید غم و غصہ کا اظہار کرتا ۔ فاطمہ جناح کے خلاف دیواروں پر نعرے لکھنے والوں اور ایوب خان کے مقابلے میں دھاندلی سے الیکشن ہروانے والوں کا گریبان پکڑا جاسکتا۔ بے نظیر بھٹو کے قتل کی واردات میں ملوث لوگوں کو سامنے لا کر ان کو بے توقیر کیا جاتا اور پھر شدید غم و غصہ دکھایا جاتا ۔ کاش جب عوامی مینڈیٹ کو روند کر جمہوری حکومت کو پارلیمنٹ سے اٹھا کر باہر پھینکا جاتا رہا اس وقت بھی کوئی شدید غم و غصہ کا اظہار کرتا ۔ دھرنے سازی اور مولویوں میں رقوم بانٹنے والوں کے خلاف ایسا ردعمل آتا تو یقین آتا کہ ہم ہجوم میں نہیں کسی ریاست میں رہتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ” بے عزت“ کرتے وقت صرف افسوس کا اظہار بھی کردیا جاتا تو کافی تھا۔
زمینوں کی بندر بانٹ قسم کی الاٹمنٹ کرتے وقت کاش کوئی بولتا اور کوئی تو کانفرنس بلاتا کہ قومی اثاثو ں کو ان لوگوں میں کیوں بانٹا جارہا ہے جنہوں نے کبھی بھی کوئی جنگ نہیں لڑی ۔ سول اداروں میں ریٹائرڈ افسروں کی تعیناتی پر بھی تو شدید غم و غصہ بنتا تھا؟
پاکستان کی شہ رگ کشمیر بھارتی قبضے کےخلاف بھی اتنا شدید غم و غصہ نہیں دیکھا گیا جتنا ایک غدار مجرم مشرف کی سزا کے خلاف ظاہر کیا گیا۔ وطن عزیز کو اپنی وراثتی جائیداد سمجھنے اور آئین کو کھلونا سمجھنے والے ” کمانڈو“ کے خلاف سزائے موت پر قوم میں ایک اطمینان پایا جاتا ہے کہ ہماری عدلیہ بھی خوف اور جبر کے زنداں سے باہر نکلی اور اگر ہم کچھ قانونی و آئینی طور پر اطمینان محسوس کررہے ہیں تو پھر شدید غم و غصہ کا اظہار کیسا؟ مجرم مشرف کو وزیر اعظم عمران خان بارہا قاتل اور آمر قرار دیتے ہوئے قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کرچکے ، تب وہ وزیر اعظم نہ تھے ، نواز شریف اس کیس کے ”بانی “ہیں جس میں سابق آرمی چیف کو سزا سنائی گئی ۔ فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کے جو قانونی تقاضے ہیں ان کے لئے مشرف کا خود کو عدالت کے سامنے پیش کرنا ضروری ہے ۔بارہا مشرف کو وقت دیا گیا ، بلایا گیا، صفائی پیش کرنے کے لئے حفاظتی ضمانت کی چھتری بھی فراہم کی گئی مگر وہ کسی بھی ”عدالتی جال“ میں آنے پر تیار نہ ہوئے۔
عدالت نے پھر قانون کی پیرو ی کی اور سزائے موت سنادی ۔ کوئی اس کو جلدی میں سنایا گیا فیصلہ کہے یا کسی اور طرز پر غم و غصہ کا اظہار کرے ، بہر حال جمہوریت مضبوط ہوئی ۔ خوش آئند بات یہ بھی ہے کہ اب افواج پاکستان بھی آئین و قانون کا احترام کرنے والی ہے ۔ وہ فوج نہیں جو ایک مشرف کےلئے سہولت کار بن گئی تھی ۔اب بھی فوج کی چند اکائیاں غم و غصہ کے اظہار میں برسر پیکار ہیں ورنہ اکثریت تو قانون کی حامی ہے ۔
عدالت نے اپنے فیصلے سے اس تاثر کو بھی ختم کرڈالا کہ کمزور اور طاقتور کے لئے انصاف کے درجات بھی الگ الگ ہیں ۔ قانون اپنا راستہ خود بناتا ہے اور خودہی بنایا ہے اب کوئی اس فیصلے کو پسند کرے یا نہ کرے فیصلہ بہرحال ایک سلجھے ہوئے عدالتی نظام کا آغاز ہے۔ اب پرویز مشرف کو پھانسی ہوگی یا وہ پھانسی سے پہلے اپنے انجام تک پہنچیں گے اس کا فیصلہ وقت کرے گا لیکن ہمارے عدالتی نظام نے آئین و قانون کی حکمرانی کے حوالے سے اپنا ریکارڈ درست کرکے مستقبل کے لئے ایک روشن مثال قائم کی ہے۔
فیس بک کمینٹ