مصنف ۔ ڈاکٹر سکندر حیات میکن ۔مثال پبلشرز :فیصل آباد ،سنِ اشاعت2017 ء (قیمت 500 روپے)
کتابِ مذکور کے فلیپ پر ڈاکٹر تبسم کاشمیری اور ڈاکٹرانوار احمد کی رائے اس کی افادیت کو چار چاند لگا دیتی ہے ۔یہ کتاب اک تحقیقی کاوش اور فاضل مصنف کے پی ایچ۔ڈی کے مقالے کا ایک باب ہے جو کہ 2012 ءتک کی تحقیق کو اپنے دامن میں گھیرے ہوئے ہے ۔اس سے پہلے ان کی کتاب ”اردو میں سوانحی تحقیق “بھی منظرِ آم پر آ چکی ہے اور مزید ابواب کی رونمائی متوقع ہے ۔تحقیق ایک کٹھن مرحلہ ہے جو نامعلوم کی کھوج کے ساتھ معلوم کی نئی تعبیر و تشریح کرتی ہے ۔
تحقیق خیالات و واقعات کی جگالی کا نام نہیں بلکہ کسی نئی سمت کی طرف اشارہ ہوتی ہے ۔ڈاکٹر موصوف تحقیق کے اصولوں سے مکمل آگاہ نظر آتے ہیں ماخذات تک رسائی اور ان کی تحقیقی اسلوب میں پیش کش ان کے ہاں بڑے مربوط انداز میں نظر آتی ہے۔اس ایک باب کو کتابی صورت میں پڑھ کر یہ احساس شدت سے قاری کے من میں جاگ اٹھتا ہے کہ ان کامکمل مقالہ اپنی جگہ خاصے کی چیز ہو گا۔
ہر نئے محقق کے لیے سب سے بڑی مشکل موضوع کا چناﺅ اورماخذات کی نشاندہی ہوتی ہے جبکہ مصنف نے آزادی کے بعد کی تحقیقات کی یوں سمجھیں کتابیات مرتب کر دی ہے جو کہ اک نئے محقق کے لیے مشعلِ راہ ہو گی۔
ڈاکٹر انوار احمد مصنف کی عرق ریزی پر داد ان الفاظ میں دیتے ہیں :
”میں نے داستان ،ناو ل اورافسانے کے ان قابلِ ذکر مصنفوں کی فہرست بنائی جن کی کتب کے حوالے کے بغیر اس موضوع پر کوئی تحقیق اعتبار نہیں پا سکتی مجھے خوشی ہوئی ہے کہ اس کتاب کو دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ میری فہرست ادھوری ہے “
یہ کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے ۔بابِ اول میں اردو داستان کی جہاں تحقیق پر مفصل بات کی گئی ہے وہاں داستان کے فن پر مختلف نقادوں کی رائے بھی رقم کی گئی ہے ۔دوسرے باب میں ناول کی تحقیق کو جامع اندازمیں موضوع بنایا گیا ہے ۔اردو ادب میں باقی نثری اصناف پر افسانے کو برتری حاصل ہے ۔اس صنف نے جہاں بہت زیادہ ادیبوں کی توجہ اپنی جانب کھینچی وہاں تحقیق و تنقید کو بھی اپنی طرف خوب راغب کیا جس کا عملی نمونہ کتاب کا تیسرا باب اردو افسانے پر تحقیق کا جائزہ کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ڈراما تحقیق کے حوالے سے پسماندہ ہے چوتھا باب اس کی نشاندہی کرتا ہے ۔ہر باب کے آخر میں متفرق کے عنوان سے کم اہم کتابوں کا بھی ذکر کر دیا گیا ہے ۔ پانچواں باب حاصلِ تحقیق کے عنوان سے تحقیقی سفر کے حاصلات وثمرات کا جائزہ ہے ۔کتاب کے آخر میں آٹھ صفحوں کی جامع کتابیات اس کو ایک مستند دستاویزکا درجہ دیتی ہے۔