اقبال ساغر صدیقی نے جب ہمیں معروف شاعر اور سفرنامہ نگار منیر فاطمی کی شادی کی خبر سنائی توہمیں حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی۔خوشی تو خیر ہمیں سب کی شادیوں پر ہوتی ہے۔لیکن حیرت اس بات پر ہوئی کہ ہم فاطمی صاحب کوشادی شدہ بلکہ بال بچے دارسمجھتے تھے۔ہم نے ساغر صاحب سے دریافت کیا کہ کیا منیرفاطمی بھی ملک غلام مصطفیٰ کھر کے نقش قدم پرچلے پڑے ہیں؟ہمارے اس سوال پر ساغر صاحب نے وضاحت کی کہ فاطمی صاحب کی یہ پہلی شادی ہے اور ”ہوئی تاخیر توکچھ باعث تاخیر بھی تھا“۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ منیرفاطمی نے اگر شادی کی ہے تواس کی وجہ ایک شعر ہے جو تمام دوست انہیں تواتر سے سنایا کرتے تھے۔شعرکچھ اس طرح ہے
سب نے کرلی ہیں شادیاں اپنی
شرم تم کومگر نہیں آتی
بہرحال منیرفاطمی کی شادی کو 1990ءکی ادبی خبر قراردیا جاسکتا ہے۔ہم توانہیں بزرگ شعراءمیں شمار کرتے تھے۔اب معلوم ہو ا کہ وہ تو نوجوان بلکہ جواں سال بھی ہیں۔سنا ہے شادی میں ادیبوں ،شاعروں کی بڑی تعداد شریک ہوئی ۔کس کس نے سہرا لکھا یہ البتہ معلوم نہیں ہوسکا۔آج کل منیر فاطمی دوستوں سے مبارکیں وصول کررہے ہیں اور نئی غزلیں سنا کر دادکی سلامی بھی حاصل کرتے ہیں۔ابھی ہم منیر فاطمی کی شادی پرہی حیران تھے کہ نوجوان (ہمارا مطلب ہے واقعی نوجوان)انشائیہ نگار محمد اسلام تبسم کی منگنی کی خبر موصول ہوگئی۔ایک مشترکہ دوست کاتبصر ہ یہ تھا کہ یا تو اسلام تبسم اب انشائیے لکھنا چھوڑ دیں گے یا پھر سب کام چھوڑ کر صرف انشائیے ہی لکھیں گے۔ہم منیرفاطمی کو شادی اور اسلام تبسم کو منگنی پر مبارکباد دیتے ہیں۔نوازش علی ندیم کو جب ہم نے یہ دونوں خبریں سنائیں تو ان کافوری تبصرہ یہ تھا
ایں سعادت بزور بازونیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ
نوازش بتانا یہ چاہتے تھے کہ انہیں بھی فارسی کے چند اشعار اورمصرعے یاد ہیں۔اور وہ انہیں برمحل استعمال کرنا بھی جانتے ہیں۔شادی اور منگنی کاذکر طوالت اختیارکرگیا ۔اس موضوع کو سمیٹتے ہوئے حفیظ خان کے سرائیکی افسانوں کے مجموعے ”ویندی رت دی شام“کاتذکرہ کرتے ہیں جودوماہ سے ہمار ے پاس موجودہے لیکن ہم اب تک اس کا مطالعہ نہیں کرسکے۔اردو کی کوئی کتاب ہوتی تو کب کی پڑھی جاچکی ہوتی۔رفعت عباس سرائیکی کانوجوان شاعرہے اس کے ساتھ اس موضوع پر بات ہوئی تواس نے حفیظ خان کے افسانوں کی بہت تعریف کی۔اور ہم نے اس پر یقین بھی کرلیا۔حفیظ خان کے افسانوں کے بارے میں ڈاکٹر مہرعبدالحق کی رائے مستند ہے اورانہوں نے حفیظ خان کو سرائیکی کا اہم افسانہ نگار قراردیا ہے۔مہرعبدالحق کی رائے پڑھنے کے بعد حفیظ خان کے افسانے پڑھنے کی خواہش مزید بڑھ گئی۔جی چاہتا ہے کسی روز حفیظ خان سے کہوں کہ وہ بھی اپنے افسانے ہمیں اسی طرح سنائے جس طرح رفعت عباس نظمیں اور غزلیں سناتاہے۔رفعت کاطریقہ واردات یہ ہے کہ وہ مصرع سنانے کے بعد اس کا اردو یا پنجابی ترجمہ بھی سناتا ہے۔اس کے بعدکہتاہے ”ہن تاں سمجھ آگئی ہوسی“(اب تو سمجھ آگئی ہوگی)۔
روزنامہ امروز لاہور۔26جولائی1990ء