برگد پہ محو خواب ہیں سو رنگ کے طیور
آہستہ بول پنکھ نہ لگ جائیں رات کو
یہ خوبصورت شعر ڈاکٹر بیدل حیدری کا ہے جن کو آج جہان فانی سے رخصت ہوے 14 سال گزر چکے ہیں۔میرا ان سے رفاقت کا عرصہ کم وبیش 30 سال پر محیط رہا۔ جس میں ان سے لڑائیاں بھی ہوئیں ۔بہت گہری رازداری بھی رہی۔ ان کی شخصی کمزوریاں اپنی جگہ مگر یہ بات طے ہے کہ ان کی شعر وادب سے وابستگی کمال کی تھی ۔ انہوں نے اپنا ایک ایک پل شاعری میں بسر کیا۔ اتفاق سے ان کے آخری لمحوں میں مَیں ان کے قریب تھا۔ اور اس گھڑی بھی وہ اپنی صحت کے حوالے سے فکر مند ہونے کی بجائے مجھے گزشتہ دنوں کی ادبی روداد سنانے میں مصروف تھے۔ اور کمال یہ ہے اس روز انہوں نے ایسے انکشافات کئے جو میرے لئے بھی حیران کن تھے ۔ان میں سے بہت سی اہم باتوں کو میں اپنی خود نوشت کا حصہ بھی بنارہا ہوں۔ جو یقنیا ادبی تاریخ کا حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ ادب کے قارئین کے لئے دلچسپی کا باعث ہوں گے۔
7مارچ 2004 اتوار کی خوشگوار صبح مجھے حسب وعدہ بیدل صاحب کی طرف جانا تھا۔ یہ وعدہ انہوں نے ایک ہفتہ پہلے 10 محرم کو ہونے والی اچانک چند لمحوں کی ملاقات کے موقع پر لیا تھااس مختصر سی ملاقات کے موقع پر حسب سابق انتہائی پراسرار انداز میں کچھ آف دی ریکارڈ ادبی باتیں بتانے کا بھی کہا تھا ۔ یہ ان کا عمومی سٹائل تھا۔
خیر میں اس روز تقریبا 10 بجے صبح اپنے موٹر سائیکل پر روانہ ہوا جب میں ان کی گلی میں داخل ہوا تو میں نے غیر متوقع طور پر انہیں اپنے ایک شاگرد مظفر عالم کے ساتھ چنگ جی رکشاپر سوار شہر کی طرف آتے دیکھا ۔ مجھے آتے دیکھ کر انہوں نے رکشا روکا اور فرمانے لگے میری طبعیت ٹھیک نہیں میں ڈاکٹر صغیر انصاری کے کلینک کی طرف جارہا ہوں ۔ آپ ہمارے پیچھے آجائیں ۔ چنانچہ میں بھی ان کے پیچھے ڈاکٹر کے کلینک کی طرف روانہ ہولیا ۔ ڈاکٹر احمد صغیر انصاری کبیروالہ میں بہت عرصہ سے پریکٹس کر رہے تھے۔وہ پرانے وقتوں کے ایل ایس ایم ایف تھے ۔لیکن ان کی تشخیص بلا کی تھی۔ اپنی خوش اخلاقی کی وجہ سے کبیروالہ کے شہریوں میں بہت مقبول تھے ۔ یہی وجہ تھی ان کے کلینک پر مریضوں کا بے پناہ رش رہتا تھا۔ اس روز بھی مریضوں کے بے پناہ رش میں پھنسے ہوئے تھے انہوں نے جونہی ڈاکٹر بیدل حیدری کو دیکھا۔ وہ فوری طور پر مریضوں کو چھوڑ کر ان کی طرف آگئے ۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی طبعیت کا بتایا۔ انہوں نے سٹیتھوسکوپ کے ذریعے ڈاکٹر صاحب کو چیک کیا اور ہنستے ہوئے کہنے لگے آپ بالکل ٹھیک ہیں۔ابھی تو آپ نے ایک شادی اور کرنی ہے جس پر ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا شادی تو میری ضرور ہوگی لیکن موت سے۔۔ یہ جملہ سن کر ہم سب نے کہا ڈاکٹر صاحب سلامت رہیں۔ ابھی تو آپ نے بہت شعر کہنے ہیں ۔ ڈاکٹر صغیر صاحب نے انہیں اپنے کلینک پر ڈرپ لگوانے کا مشورہ دیا لیکن ڈاکٹرصاحب نے جواب دیا ڈرپ میں ضرور لگواؤ ں گا ۔ لیکن اپنے گھر پر ۔چنانچہ ڈاکٹر صاحب نے ڈرپ اور دیگر دوائیوں کا نسخہ لکھا اورانہیں ہنستے ہوئے کلینک سے رخصت کیا۔ باہر میڈیکل ہال سے میں نے اور مظفر عالم نے ڈرپ اور دیگر دوائیاں لیں اور ان کے گھر کی طرف روانہ ہوگئے اب ڈرپ لگانے کا مسئلہ تھا چنانچہ ڈاکٹر صاحب کے ایک دیرینہ ترقی پسند دوست ڈاکٹر دل احمد کو بلوایا گیا ۔جنہوں نے ڈاکٹر صاحب کو ڈرپ لگائی۔ اس عرصہ میں ڈاکٹر صاحب نے رازدارنہ انداز میں مجھے گز شتہ دنوں گزرنے والی کچھ ادبی قصے سنانے شروع کر دئیے ۔ اپنے سرہانے سے کچھ نئے آنے والے خطوط نکال کر مجھے پڑھانے شروع کر دیئے کچھ شاگردوں کی آنے والی بے وزن غزلیں دکھائیں۔ اپنی حال ہی میں شائع ہونے والی شعری مجموعےان کہی کے بارے میں تحفظات کا ذ کر کیا۔ اس کتاب کو ان کے شاگرد شکیل سروش نے شائع کیا تھا۔ ۔ مقامی ادبی سیاست پر بھی گفتگو فرمائی ۔ چند ایک ایسی باتیں بھی کیں جو فساد خلق بھی پیدا کر سکتی ہیں ۔ لیکن میں ان کی اس عادت سے آگاہ تھا لہٰذہ میں نے انہیں کوئی اتنا سنجیدہ نہیں لیا ۔ اس تمام ملاقات اور ان کی گفتگو میں کہیں یہ شائبہ نہیں ہو رہا تھا کہ وہ چند گھنٹوں کے مہمان ہیں ۔ حتیٰ کہ ان کی آواز میں بھی وہی گھن گرج تھی جو عموما عام حالات میں ہوتی تھی ۔ اتنی دیر میں ڈرپ بھی ختم ہوچکی تھی ۔ لہٰذہ میں نے انہیں آرام کامشورہ دیا اور شام کو آنے کاوعدہ کرکے اجازت لے کر اپنے گھر آگیا۔
اور پھر چند گھنٹوں کے بعد ان کے ایک دوست ملک رفیق کے ٹیلی فون سے اس اندوہناک خبر کا پتہ چلا کہ وہ اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے ہیں
گرمی لگی تو خود سے الگ ہوکے سوگئے
سردی لگی تو خود کو دوبارہ پہن لیا
بیدل لباس زیست بڑا دیدہ ذیب تھا
اور ہم نے اس لباس کو الٹا پہن لیا