ایک روز ہم بابا ہوٹل میں بیٹھے ملتان کے شاعروں اور ادیبوں کو چائے کی پیالیوں میں طوفان برپا کر تے دیکھ رہے کہ یک دم سامنے سے اطہر ناسک آتے دکھائی دئے ۔ موصوف کے ہاتھ میں گولڈ لیف کی ڈبی تھی انہوں نے ایک سگریٹ خود سلگایا اور ہمیں کچھ اس انداز میں سگریٹ کی پیش کش کی کہ ہم نے انکار میں ہی عافیت جانی ۔ موصوف آج کل صادق آباد کالج میں پڑھاتے ہیں اور ہم ایک نثری قصیدہ بعنوان ”درمد ح اسبابِ زوالِ تعلیم “ ان کی شان میں تحریر کرنے والے ہیں۔ اطہر ناسک نے شکوہ کیا کہ ہم ملتان کے بزرگوں کی لگامیں تو کھینچتے رہتے ہیں مگرنوجوانوں سے شاید ہمیں خدا واسطے کا بیر ہے ۔ ہم نے وضا حت کی کہ ہماری نوجوانوں سے کوئی دشمنی نہیں اور یہ کہ ہم 60برس کے ہونے کے باوجود خود کو نوجوان ہی سمجھتے ہیں اور آپ نوجوان کیا چاہتے ہیں ؟ ۔ اطہر ناسک نے سگر یٹ کا لمبا کش لیتے ہوئے کہا کہ ” اے ہوتل بابا ہم یہ چاہتے ہیں کہ آپ ایک کالم ملتان کے نوجوانوں کی ادبی سرگرمیوں کے بارے میں بھی لکھیں “۔ اب اطہر ناسک کو کیا معلوم کہ ادبی سرگرمیاں تو کبھی بھی ہمارا موضوع نہیں رہیں اور ہم نے جب بھی لکھا ادیبوں کے غیر ادبی رویوں کے بارے میں لکھا اور پھر ملتان میں اب نوجوان ہی کتنے ہیں ایک اطہر ناسک ہو تے تھے وہ بھی صادق آباد چلے گئے۔ اختر شمار ان سے پہلے ہی لاہو ر جا چکے ہیں جہاں وہ فلمی گیت لکھ کر قتیل شفائی کی روزی میں لات مارنا چاہتے ہیں ۔ بیدل حیدری کے دو ہی تو نام لیو ا تھے وہ بھی نہ رہے ۔ اسی طرح ایک صاحب رضی الدین رضی ہوا کر تے تھے خدا بخشے وہ بھی عرصہ ہوا ملتان چھوڑ گئے یوں ان تین نوجوانوں کے بعد اب ملتان کی فضا خاصی صحت افزاءہو گئی ہے ۔ باقی مانندہ نوجوانوں میں قمر رضا شہزاد ، حسنین اصغر تبسم ،شاکر حسین شاکر نوازش علی ندیم اور محمد اسلام تبسم ہی نظر آتے ہیں ۔قمر رضا شہزاد اور حسنین اصغر تبسم کو ہم اس لئے اچھا اور خوش قسمت سمجھتے ہیں کہ یہ دونوں نوجوان کبیر والا میں رہتے ہوئے بیدل حیدری کے چنگل میں نہ پھنس سکے ورنہ بیدل حیدری کی استادی تو وائرس کی طرح ملتا ن اور گردو نواح میں پھیل چکی ہے ۔ شکر ہے ان کے ماتھے پر بیدل حیدری کی شاگردی کا ٹیکہ نہیں ورنہ آج وہ بھی شرمندہ شرمندہ پھر رہے ہوتے ۔ ملتان میں محمد امین نے ہائیکو کا جو پودا لگایا شاکر حسین شاکر اب اسے پانی دے رہے ہیں سنا ہے اختر شمار نے بھی کچھ عرصہ ہائیکو کے بوٹے کو پانی دیا لیکن امین صاحب اس کی کارکردگی سے خوش نہ تھے سو انہوں نے یہ کام شاکر کے سپرد کر دیا ۔اختر شمار اب ہائیکو پروری کا ثبوت یوں فراہم کر رہے ہیں کہ ایک فلم کی کہانی اور گیت لکھ رہے ہیں فلم کا نام ہے ” ہائیکو میرے ویر دا “ مسرت نذیر نے اس فلم کے لئے گانے ریکارڈ کرانے کی حامی بھر لی ہے بہر حال ہم ہائیکو کے سلسلے میں کی جانے والی کوششوں کی کامیابی کے لئے دعا گو ہیں اور اب ایک شریف نوجوان سے آپ کا تعارف کر اتے ہیں ۔ ہمارا مقصد یہ نہیں کہ آپ باقیوں کو بدمعاش سمجھ لیں ہم دراصل آپ کو اسلام تبسم کی خوبیاں بتانا چاہتے ہیں ۔ شرمیلا اس قدر ہے کہ شرمیلا ٹیگور کو مات کرتا ہے مہمان نواز ایسا کہ آپ کو چائے ضرور پلائے گا اور اگر گھر میں بسکٹ نہ ہوں (جو عموما نہیں ہوتے ) تو دوروپے آپ کی جیب میں ڈال کر کہے گا کہ” بسکٹ بازار سے لے کر کھا لینا “ہمارا یہ خیال ہے کہ ایسے لوگوں کے دم قدم سے ہی یہ دنیا قائم ہے ۔
پندرہ روزہ دید شنیدلاہور۔16جولائی 1987
فیس بک کمینٹ