سماجی مذہبی گھٹن سے دوچار ریاستیں المیے جنم دینے میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں. آزادی ایک ایسی نعمت ہے جس کی قدر ان لوگوں سے پوچھیے جو بات کرنے میں آزاد نہیں، جو لباس پہننےمیں آزاد نہیں، جو اپنی مرضی کا کھانا کھانے میں آزاد نہیں، جو تعلق رکھنے اور شادی تک جیسے انتہائی نجی معاملے میں آزاد نہیں جو زندگی کے شب وروز کے معاملات مرضی سے طے کرنے میں آزاد نہیں، جو اپنی عبادات اور مرضی کے عقائد رکھنے میں آزاد نہیں. اگر کوئی صرف بیڑیوں میں جکڑے اور سلاخوں کے پیچھے بند انسان کو مقید یا غلام تصور کرتا ہے تو وہ شائد صریح غلط فہمی میں مبتلا ہے. یہ تو غلامی کی سب سے کمزور اور گھٹیا ترین صنف ہے. کسی کو ذہنی طور پر غلامی میں رکھنا اور سماجی دباؤ کی شدت سے اس کو معزور بنا دینا غلامی کی بدترین شکل ہے.
سامراجیت پسند اپنے مذموم سامراجی اور قبضہ گیر نفسیات سے لبریز مقاصد کے حصول کے لیے سادہ لوح عوام کو مذہبی، ثقافتی اور سماجی بندشوں میں جکڑے رکھتے ہیں تاکہ ان کی درندگی کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو. کیوں کہ ایک آزاد ذہن اور مکمل طور پر آزاد جسم استحصال کی کسی بھی صورت کو نہ تو برداشت کرتا ہے اور نہ ہی استحصالی قوتوں کو پنپنے دیتا ہے. جس کی وجہ سے دولت کی گندگی زدہ حرص کی طابع فرمان معاشرتی جوئیں انسانی خون کو چوسنے کے لیے مذہبی شدت پسندی بالخصوص اور رواجی انتہا پسندی بالعموم کے بییج بوتی رہتی ہیں. مذہبی دلال اپنے چند ٹکے کے ذاتی مفادات کے لیے کسی بھی حد تک گر جاتے ہیں. ویسے تو پوری دنیا اس وقت اس عالمگیریت کے بدبودار جوہڑ میں تبدیل ہو چکی ہے اور انسانی زندگیوں کی قیمت پر زر پرست دولت جمع کرنے میں مصروف ہیں. انسانی لاشوں کے انبار جتنے بڑے ہوں گے ان مردہ ضمیر کیپٹلسٹس کے کیپٹلز میں اتنا اضافہ ہوگا. متشدد ملائیت چاہے کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتی ہو، یہ خونی درندے اس کے سب سے بڑے دلال ہیں.
اس تمام تر صورت حال میں سب سے زیادہ رگڑا پسماندہ اور ترقی پزیر مذہبی فسطائیت کے زیر اثر ریاستوں کے عوام کو لگتا ہے. ہماری ریاست بھی اس سینڈروم کی زد میں ہے اور انسانی سروں میں ہر روز چھید ہوتے ہیں. اس ریاست کی رعایا خوف کے سائے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے. جس جس نے اس سماجی وحشت اور متشدد مذہبی غلامی سے نکل کر آزاد فضاؤوں میں سانس لینے کی ہلکی سی کوشش کی، نشانِ عبرت بنا. حادثے سے بڑھ کر حادثہ یہ واقع ہوا ہے کہ اس ظلم اور ننگی بربریت سے ریاست کے جن اداروں نے عوام کو نکالنا تھا بدقسمتی سے وہی کسی حد تک اس کی حوصلہ افزائی کرتے پائے گئے ہیں. اس بارود سے اٹے ماحول میں سانسیں اکھڑ رہی ہیں مگر کسی کو کوئی فکر تک نہیں.
16 جولائی 2016 کا سورج بھی اس خوف کو مزید گہرا اور خون کے داغ چھوڑ کر غروب ہوا. ڈیرہ غازی خان کی واحد قندیل کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بجھا دیا گیا. قندیل بلوچ کو اس کے بھائی نے غیرت کے نام پر قتل کر دیا. قندیل کا جرم صرف یہ تھا کہ اس نے منٹو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس معاشرے کی منافقت پر کاری ضرب لگائی تھی. کچھ لوگوں کے خیال میں اس نے لاشعوری طور پر صرف شہرت کے حصول کے لیے عریانیت اور فحاشی کا سہارا لیا تھا. اس طرح کے لوگ کہتے ہیں کہ قندیل کو قتل تو نہ کیا جاتا مگر وہ بھی راستے سے بہت ہٹ گئی تھی. بنیادی طور پر یہی منافق بیانیہ اس کے قتل کی بنیاد بنا.
میرے خیال میں وہ ایک بہادر، باغی اور جنسی طور پر لتھڑے اس معاشرے کا اصل عکس دکھانے نکلی تھی. اس کی جتنی گفتگو ریکارڈ پر ہے آپ ملاحظہ کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ واقعی وہ اس منافقت کو عیاں کرنے نکلی تھی. اور اس کا بڑا جرم یہ بھی تھا کہ وہ ایک لڑکی تھی اور اپنی مرضی کی زندگی جینے کی خواہش رکھتی تھی مگر اس میل ڈومینینٹ سماج میں اس کی یہی سزا بنتی تھی جو اس کو ملی.
اس تمام تر قضیے میں جس چیز نے ہر باشعور بلوچ کو ٹارچر کیا وہ ایک نیم قبائلی اور غلام داری نظام کے طابع ایک نام نہاد بلوچ کی نام نہاد غیرت کا ننگا پن تھا. ڈیرہ غازی خان کے ایک قبائلی سردار کے گماشتے نے ایک انوکھی منطق پیش کی کہ قندیل اپنے نام کے ساتھ بلوچ کا لاحقہ ختم کرے کیونکہ اس ذہنی معزور قبائلی غلام کی انا کو گوارا نہ تھا کہ ایک لڑکی اس طرح مشہور ہو جائے.اس حوالے سے اس نے کورٹ میں پٹیشن فائل کر دی. پہلی بات تو یہ ہے کہ بلوچیت کی اسناد تقسیم کرنے کی اجازت اس بےشعور نفرت انگیز ذہنیت کے حامل انسان کو کس نے دی. دوسری بات بلوچ قومیت کی بنیاد لبرلزم اور روشن خیالی پر ہے. بلوچ فلاسفی میں کسی تنگ نظری کی کوئی گنجائش نہیں. بلوچ وطن میں رہائش پذیر ہر فرد بلوچ ہے اور بلاتفریق جنس اپنی زندگی مکمل طور پر گزارنے میں آزاد ہے. اس قتل کے محرکات میں سے ایک محرک ڈی جی خان کے علاقے گدائی کے یہ وائس چئرمین قبائلی غلام بھی ہیں. انہیں بھی شامل تفتیش کر کے کیفرکردار تک پہنچایا جائے.
قندیل قتل کیس میں ایک اور بدصورت کردار ایک انتہائی بدشکل نفرت کا سوداگر مذہبی شہوانیت پرست ملا بھی ہے بلکہ اگر تفتیش کار تھوڑی سی ٹرانسپرنسی کا قائل ہو تو بنیادی محرک ہی یہی شہوانیت پرست ملا ہے. ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں قندیل بطور ماڈل اس جنس پرست سے ملاقات کرتی دکھائی دیتی ہے اور اس ملاقات میں اس ملا نے قندیل کے جسم کے لمس سے اپنی شدت شہوانیت مٹانے کی آرزو کا اظہار کیا تو قندیل جو اسی منافقت کو عیاں کرنے کے درپے تھی، نے اس ملاں کی ننگی خواہش اور ننگی شخصیت کو پوری عوام کے سامنے رکھ دیا.
اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد ملاں جو مذہب کی آڑ میں گندا دھندا کرنے کا آرزو مند تھا، کی ہر جگہ بدنامی ہوئی اور اس کو اپنی لاکھوں روپے ماہوار کی نوکری سے ہاتھ دھونے پڑے. اس تمام تر نقصان نے اس خبطی کو مزید پاگل کر دیا اور وہ انتقام کی آگ میں جلنے لگا. اور پھر قندیل کے والدین اور وکلا کے بقول اس نے قندیل کے بھائی کو اکسایا اور اسے کچھ رقم بھی دی. اس کا بھائی جو کہ بےروزگار بھی تھا اور قندیل کے ہی زیرکفالت تھا مگر معاشرتی نفرت اور طعن وتشنیع کو برداشت نہ کر سکا اور اس منتقم ملا اور سماجی دباؤ میں آ کر اس نے اپنی ہی بہن کو بے دردی سے قتل کر کے اعتراف جرم بھی کر لیا.
اس نے غیرت کے نام پر قتل اس وقت کیا جب سماج نے اس کی نام نہاد غیرت پر ضرب لگائی. مگر بدقسمتی سے اس بھائی کو تو گرفتار کر لیا گیا مگر جنسی درندے ملا کی تاحال گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی. جس کی وجہ سے حال ہی میں بی بی سی نیوز کی ایک خاتون رپورٹر کو بھی اس شہوانیت پرست ملا نےجنسی طور پر ہراساں کرنے کی کوشش کی. قندیل کے قتل کے اس مرکزی سہولت کار کو گرفتار کیا جائے، اگر مزید قندیلیں بجھانے سے بچانی ہیں تو. اگر اس معاشرے کو بربریت اور جنسی وحشت سے پاک کرنا ہے اور اگر مذہب کی آڑ میں اس طرح کے درندے اسی طرح لگے رہے تو پھر یہاں جنسی استحصال کی داستانوں کے انبار لگ جائیں گے. سہولت کار شہوانیت پرست ملا کو قرار واقعی سزا دی جا ئے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں.
مجھے حیرت ہوتی ہے اس قابل رحم بےلگام گروہ پہ کہ جو کسی جنس مخالف کو دیکھ کر اپنی گندی مردانگی کوکنٹرول نہیں رکھ سکتا اور ان کی دھوتیوں، پتلونوں اور شلواروں میں ارتعاش شروع ہو جاتا ہے اور منافقت کی حد ملاحظہ ہو کہ یہ ریوڑ عزت اور غیرت کا نام لیتا ہے. تھیوری میں تو عورت کو پردہ کے پیچھے رکھنے کا خواہاں اور عمل میں اسی عورت کے جسم پر چیتھڑا تک نہیں دیکھنا چاہتا. اگر کوئی لڑکی اس گھٹن سے بغاوت کا ارتکاب کرے اور باہر نکل کر اپنی زندگی جینے کی کوشش کرے تو یہ اَن کنرولڈ ہجوم اس پر پل پڑتا ہے.
کیا ہم خدا کے طے شدہ ضابطوں میں مداخلت بند نہیں کر سکتے؟ کیا سزا اور جزا کے معاملات خدا پر نہیں چھوڑ سکتے؟ کیا ہم جس ریاست میں رہتے ہیں اس کو اپنے معاملات چلانے کے لیے ایک سیکولر آئین کے زیر سایہ آزاد نہیں چھوڑ سکتے. اور کیا ہم اپنی اپنی شرافت کی تلوار کو اپنی نیام میں کس کر نہیں رکھ سکتے، اور کیا ہم کسی انسان کو اس کے جینے کا پورا پورا حق استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے.
سعادت حسن منٹو نے کہا تھا کہ جب شرافت کے کپڑے اترتے ہیں تو سب سے زیادہ مزہ بھی شریفوں کو آتا ہے.
قندیل بلوچ، تم بلوچ قوم کی ایک آزاد رکن تھیں اور ہم تمہاری سادگی، تمہاری بہادری کی قدر کرتے ہیں. مگر ہم تم آپ سے شرمندہ بھی ہیں کہ تمہیں اکیلا مرنے کے لیے چھوڑ دیا.اور جب یہ لاوا پک رہا تھا کوئی تمہاری مدد کو نہ آ سکا. مگر تم ایک بہادر لڑکی ہو اور سماجی بندشوں سے آزادی کی جنگ کی سپاہ سالار کے طور پر ہمیشہ تم زندہ جاوید رہو گی اور اس دھرتی کے ہر منافق کی کالک قندیل کی روشنی سے مزید واضح ہوتی رہے گی. اور جب اس سماج کے شعور نے انگڑائی لی، یہ تمہاری قبر پر پھول چڑھائےگا.
(بشکریہ: حال حوال ۔۔ کوئٹہ)