میر غوث بخش بزنجو بلوچستان کے دور افتادہ علاقے نال سے تعلق رکھنے والے بلوچ قوم پرست رہنما تھے۔ وہ اپنی جماعت استھمان گل (عوام جماعت) کے ذریعے بلوچوں کے حقوق کے لیے سرگرم تھے ۔ ان کے ساتھ گل خان ناصر اور پرنس کریم خان آف قلات بھی بلوچوں کے حقوق کی ترویج کے لیے کام کر رہے تھے، بزنجو صاحب میرے والد سید محمد قسور گردیزی کی جدوجہد کے ساتھ منسلک ہو گئے، جو میاں افتخار الدین اور میاں محمود علی قصوری کے قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی آزاد پاکستان پارٹی کو تحلیل کر کے ایک مرکزی دھارے کی ترقی پسند بائیں بازو کی جماعت بنائی جس کی جڑیں مشرقی پاکستان سمیت پاکستان کے تمام صوبوں کے عوام میں تھیں۔ نیشنل عوامی پارٹی (NAP) دیوبند کے سابق طالب علم مولانا عبدالحمید خان بھاشانی کی قیادت میں قائم کی گئی تھی، جنہیں مظلوم اور پسے ہوئے طبقے کا لیڈر بھی کہا جاتا تھا۔ وہ مشرقی پاکستان کسان تحریک کے بانی تھے اور پاکستان کی طرف سے مغربی ممالک کے SEATO CENTO کے معاہدوں میں شمولیت کے مخالف تھے ۔ بھاشانی صاحب عوام کی حاکمیت اور اسلامی سوشلزم کی حمایت کی وجہ سے "سرخ مولانا” کے نام سے مشہور ہوئے۔ خان عبدالغفار خان خدائی خدمتگار اور ان کے بیٹے خان عبدالولی خان بھی ترقی پسند حریت پسندوں میں شامل ہو گئے۔ جی ایم سید، شیخ عبدالمجید سندھی، سندھ سے حیدر بخش جتوئی اور بلوچستان سے عبدالصمد اچکزئی اور ہاشم غلزئی اور مشرقی پاکستان کی اقلیتی جماعتوں نے پاکستان کی اس سیاست میں NAP کو قدم جمانے میں مدد د ی، جس نے نوآبادیاتی دور کے جاگیردار خاندانوں اور سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو ہلا کر رکھ دیا۔ 1959 کے عام انتخابات کے اعلان سے ایک سال قبل 1958 میں ملک پر ایوب خان کی قیادت میں مارشل لاء لگا دیا گیا۔ نیپ پر پابندی عائد کر دی گئی اور پاکستان کے عوام کی حقیقی قیادت کی قربانیوں کے نئے دور کا آغاز ہو گیا ۔
ایوبی آمریت سے ہی ملک کی تمام برائیوں کا آغاز ہوا جب بے تاج جرنیل نے سب سے پہلے اپنے لئے فیلڈرز کے عہدہ کا انتخاب کیا۔ حقیقی سیاسی قیادت اور پارٹیوں پر کہر نازل کیا گیا۔ سیاست پر پابندی اور فوجی انصاف کیلئے چھاؤنیوں میں عدالتیں لگنے لگیں ۔ نیشنل عوامی پارٹی جو مشرقی پاکستان میں اور مغربی پاکستان میں حکومتیں بنانے اور عوامی مقبولیت کی اہلیت رکھتی تھی اس پر پابندی لگا دی گئی۔ مغربی پاکستان کے جاگیر طبقے کو زیر کرنے کیلئےوسیع پیمانے پر پکڑ دھکڑ کی ذمہ داری نواب آف کالاباغ ملک امیر محمد خان کو دے کر انہیں گورنر بنا دیا گیا ۔ سیاسی کار کنوں کی گرفتاریاں شروع ہوئیں اور زندانوں دروازے کھول دیئے گئے ۔ اٹک کا قلعہ اور لاہور کا شاہی قلعہ عقوبت خانوں میں سر فہرست رہے ۔ کئی کارکنوں نے جانوں کا نذرانہ پیش کیا ۔ حسن ناصر کو شہید کر دیا گیا اور قسور گردیزی کو بھی اس عقوبت خانے کا مزاج سہنا پڑا اور وہ موت کے منہ سے بال بال بچے۔
قسور گردیزی جو 30 مربع اراضی کےزمیندار ہونے کے ساتھ ملتان کی مقتدر کاروباری شخصیت اور ملتان ایوان تجارت و صنعت کے بانی صدر تھے مارشل لاء دور میں ان کو پابند سلاسل کرنے کے ساتھ ساتھ سارے کاوباری دفتروں کو بلڈوزروں سے زمین بوس کر دیا گیا۔ نواب آف کالاباغ نے یزید کا روپ دھار کر تمام جاگیرداروں کو یہ پیغام دیا کہ اگر انہوں نے ایوبی آمریت کی مخالفت کی تو ان کا حال بھی قسور گردیزی جیسا ہو گا ۔
نیشنل عوامی پارٹی کے آفس سیکرٹری غلام محمد ہاشمی کو نامعلوم افراد اغوا کرکے لے گئے اور عجلت میں ان کی گردن پر چھری چلا کر انہیں کماد میں پھینک دیا گیا ۔ یہ تو اس کی زندگی کی ڈور قدرت کے ہاتھ میں تھی کہ کچھ راہگیروں نے اسے بر وقت شفا خانے پہنچایا۔۔
ایوبی دور سے ہی ملکی خزانوں اور پلاٹوں کی لوٹ مار شروع ہوئی۔ گندھارا آرکسٹرا گوہر ایوب ، سہگل اور آدم جی خاندانوں کے وارے نیارے ہوئے اور حبیب جالب کو بر ملا کہنا پڑا
"بیس روپیئہ من آٹا اس پر بھی ہے سناٹا
گوھر ، سہگل، آدم جی بنے ھیں برلا اور ٹاٹا،
صدر عیوب زندہ باد”
آج کے سیاسی دور میں جب سوشل میڈیا کی وجہ سے خبریں فسانہ بن رہی پیں اور سیاسی قربانیوں کو مبالغہ آرائی سے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے یہ بتانا ضروری ہے کہ سابقہ دور میں ریڈیو اور پرنٹ میڈیا کو مخصوص معلومات فراہم کی جاتی تھی نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما میاں افتخار الدین کے پروگریسیو پیپرز لمٹیڈ کے اخبارات نے مزاحمتی خبریں لگانے پر حکومتی کہر کا سامنا کیا ۔
قسور گردیزی بھی پروگریسیو پیپرز لمٹیڈ کے بورڈ آف ڈائریکٹر کے ممبر تھے اورانہوں نے اس کی بندش کے بعد بہت سارے مقدمات کا سامنا بھی کیا۔
قسور گردیزی نے تواتر سے جیل جانے کی وجہ سے اپنے بچوں کو ہمیشہ مقامی سکولوں کے ہوسٹلوں میں داخل کروائے رکھا تاکہ وہ ہر بار انہیں سرکاری مہمان بنتے ھوئے نہ دیکھ سکیں۔اور امور خانہ کی انچارج کو روز کی پریشانیوں سے محفوظ رکھنے کیلئے لکڑی کا ایک مضبوط بکس بنوا رکھا تھا جس میں جیل میں پہننے کے کپڑے نہانے کا سامان روٹی پکانے اور کھانے کے برتن اور ھر ضرورت کی اشیا تیار رکھی تھیں ۔ انہیں علم تھا کہ کسی وقت بن بلائے جیل جانے کے احکامات آتے ھیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ لندن کا ایک سپر سٹور مارکس اینڈ سپانسر جو انسانی روزمرہ کے کپڑے اور اشیا بناتا ہے کے مینیجر سے Jail kit کے بارے میں دریافت کیا تو وہ حیرت میں پڑ گیا اور وجوہات پوچھنے پر کہنے لگا کیا سارے پاکستان میں جرائم زیادہ ہیں۔ ادھر تو آپ کا صدر کرسٹین کیلر کے ساتھ گلچھڑے اڑاتا رہا ہے، اس کا حوالہ برطانیہ کی پلے گرل سے تھا جو ایوب خان کے ساتھ نیم برہنہ لباس میں swimming pool میں نہائی اور مغربی اخبارات میں سکینڈل بنے ۔
فیس بک کمینٹ