ایک تو اس ملک میں سوال اٹھانے کے شوقین بہت ہیں۔ خود اٹھا لیے جاتے ہیں، مگر سوال اٹھانے سے باز نہیں آتے۔ اور جب ان میں سے کوئی ”اٹھا لیا“ جائے، تو بھی پوچھیں گے کہ کس نے اٹھایا؟ یعنی ناشکری کا یہ عالم ہے کہ اس پر بھی خوش نہیں کہ چلو اٹھایا گیا تھا تو ”ہلکی پھلکی سرزنش “ کر کے چھوڑ تو دیا گیا۔ اب یا تو سب کو ایک ایک مرتبہ اٹھایا جائے کہ انہیں خود ہی معلوم ہو جائے کہ کون اٹھاتا ہے۔
اگر کوئی ویڈیو لیک ہو جائے تو بجائے ویڈیو بنانے والے کی مہارت کی داد دینے کے، سوال کرنے لگتے ہیں کہ ویڈیو بنائی کس نے اور کیسے؟ اور اگر لیک ہوئی تو لیک کس نے کی؟ اور اگر لیک کی تو کس مقصد کے تحت کی؟ اور اگر پرانی ویڈیو ہے تو اب آ کر لیک کیوں کی؟
اگر کوئی گروہ سڑکوں پر آ جائے تو فوراً اندازے لگانے لگیں گے کہ کس کے اشارے پر آیا؟ اگر کسی گروہ سے صلح صفائی سے معاہدہ ہو جائے تو پوچھیں گے کہ معاہدہ کس نے کیا؟ اور اگر معاہدے کی شقوں کو بدخواہوں کی بری نظر سے بچانے کے لیے خفیہ رکھا جائے تو کہیں گے کہ ایسا کیا ہے جس کی پردہ داری کی جا رہی ہے؟ یعنی اس بات کی کوِئی ستائش نہیں کہ کس خوش اسلوبی سے تمام معاملے کو ” طے” کر لیا گیا- ”پیغام” پہنچا دیا گیا، ”اثاثے“ محفوظ کر لیے گئے، اور امن امان کی صورتحال کر بگڑنے سے بچا لیا گیا۔
اگر سوشل میڈیا پرففتھ جنریشن وار کے مجاہدین ملک دشمنوں کا ایجنڈا ناکام بنانے میں شب ورو ز مصروف ہیں، تو بجائے ان کی تگ و دو کو سراہنے کے سوال اٹھایا جاتا ہے کہ یہ اکاؤ نٹس آپریٹ کون کر رہا ہے؟ اور یہ کہ ” حق کا علم بلند کرنے والے“ سب اکاؤنٹس کے پروفائیلز میں اس قدر یکسانیت کیوں ہوتی ہے؟ اور وینا ملک اپنے اکاؤنٹس سے ہونے والے ٹویٹس سے بے خبر کیوں ہے؟ یعنی بجائے دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ دیکھنے کہ کیا کہا جا رہا ہے، سارا زور اس چیز کو کھنگالنے پر ہے کہ کہہ کون رہا ہے؟
اسی طرح اب اگر سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان رانا شمیم کا ضمیر جاگ ہی پڑا ہے تو بجائے داد و تحسین کے، حسبِ عادت پھر سوال اٹھانے لگے ہیں کہ سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے یہ حکم دیا تو دیا کس کے کہنے پر؟ اور اگر رانا شمیم کا ضمیر جاگا ہے تو اب آ کر ہی کیوں جاگا؟ حکم کا کیا ہے؟ کبھی بھی آ سکتا ہے۔ اور ضمیر کا کیا ہے؟ کسی بھی وقت جاگ سکتا ہے۔
عادت سے مجبور ہیں۔ بزرگ سچ ہی کہہ گئے ہیں کہ کچھ عادتیں سر کے ساتھ ہی جاتی ہیں۔ نادان ہیں، یہ سمجھ نہیں رکھتے کہ ملک حالتِ جنگ میں ہے۔ جنگ میں کئی ”گمنام سپاہی“ بھی ہوتے ہیں جن کی کاوشوں اور قربانیوں کے طفیل جنگیں جیتی جاتی ہیں۔ مگر یہ مجاہدین گمنام ہی رہتے ہیں۔ اب اگر یہ مجاہدین اپنا نام ظاہر کرنے کو خود نمائی سے تعبیر کرتے ہوئے خود کو پوشیدہ رکھنے پر مصر ہیں تو آپ سرِ دست کوڈ نیم پر ہی اکتفاء کریں۔ تماشا دیکھیں ، اور تالیاں بجائیں۔ جو بھی کیا جا رہا ہے ملک و قوم کے ”وسیع تر مفاد“ ہی میں کیا جا رہا ہے۔