طویل عرصے تک شعبہ ایمرجنسی و حادثات میں اعصاب شکن ڈیوٹی کی ادائيگی، بطور ماں تین سالہ کم سن فلزا نور کی چھوٹی بڑی ضروریات اور خواہشات کی تکمیل اور اپنے محترم استاد کيلئے کتاب کی مرحلہ وار ترتیب کے مصروف ترین وقت کے بعد کتاب کی کامیاب تقریب رونمائی سے حاصل ہونے والی دلی آسودگی کی تاثير آنکھوں تک پہنچی ہے اس میٹھی خوشی کا سرور ایسا ہے جیسے دل مستنصر حسین تارڑ کے پرندوں کی مانند ہوا کی لہروں پر پر پھیلاۓ محو پرواز ہے۔
اسی پر مسرت دن کی روداد ہے کہ ہم ہسپتال کے ساتھی ایک نئی دوا کی تعارفی تقریب و ظہرانے میں شریک ہونے جا پہنچے۔۔دوا کے کیميائی خدوخال ،ماضی و حال کے تجربات سے اخذ ہونے والے نتائج کے احوال اور دوا کے ممکنہ نفع نقصان کے خدشات پر طویل تبصروں کے بعد کھانا پیش کیا گيا۔۔۔چاۓ کافی کے عادی ہم ڈاکٹر حضرات کھانے کے بغیر تو زندہ رہ سکتے ہیں چاۓ کے بغیر نہیں۔۔۔اسی عادت سے مجبور ہم نے ٹھنڈے مشروب کی جگہ چاۓ کی درخواست کی۔۔۔سینئر ڈاکٹر کی چاۓ کو ہاں اور ہماری چاۓ کو نہ سن کر سبکی محسوس ہوئی عزت کا بھرم بھی جاتا رہا۔۔ایسے وقت میں ایک پروقار سے سينئر ڈاکٹر نے نا صرف میزبان کو سرزنش کی بلکہ چاۓ بھی بھجوائی۔۔۔ندامت اور خوشی کے ملے جلے جذبات کے زير اثر چاۓ پی کر اٹھ آۓ کہ 17 اور 18 گریڈ والوں کی چائے کی چاہ تو ایک جیسی ہے لیکن میزبان کے ردعمل میں اتنا فرق ۔۔۔بڑی دنیا کی ایسی چھوٹی باتوں کی خفت کو مٹانے کی سعی کرتے ہم اس ہلکی پھلکی پیشہ ورانہ تفریح کی یاد کو کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کرنے لگے۔۔۔تمام ساتھی فریم میں سما سکیں اس کوشش میں ہی تھے کہ ایک نقاب پوش خاتون نے آکر جھجکتے ہوۓ سلام کیا۔حالات ایسے ہیں کہ انسان ہر مخاطب کرنے والے سے ڈر جاتا ہے کہ خدا معلوم کیا مانگ لے۔۔۔
نا سمجھی سے میرے دیکھنے پر عورت فرط جذبات سے جلدی جلدی بولی ہم ایمرجنسی میں اپنی والدہ کو لاۓ تھے آپ نے ان کا علاج کیا تھا اور وہ ٹھیک ہو گئی تھیں آپ کو دیکھا تو سلام کرنے آ گئی۔۔اسکی تشکر بھری آنکھوں کو دیکھ کر یوں لگا گویا کسی نے دل کو مٹھی میں لے کر دبایا ہے اور چھڑ دیا ہے دل و دماغ تک تازہ لہو دوڑنے لگا ہے۔تمام کلفتیں اور خفت بھری تھکن اڑن چھو ہو گئی ہے جیسے گرم توے پر پانی کا چھینٹا دیا جاۓ اور سارا پانی بھاپ بن کر اڑ جاۓ۔۔میں نے اسکی والدہ کا حال پوچھا اور معذرت کی کہ میں اسے پہچان نہیں سکی۔۔اس نے بڑی خوشی سے کہا “کوئی بات نہیں“ اور اپنی راہ لی۔۔میں اسے کہہ نہ سکی کہ میرے اور میرے ہم پیشہ ساتھیوں کيلئے کسی اعزاز سے کم نہیں جبکہ عام رویہ یہ ہے کہ ہمیں الزام تراشی کا زہر تو دیا جاتا ہے لیکن تعریف و توصیف نہیں۔۔اگر کوئی جاتے جاتے بس ایسے ہی چھوٹی سی بات کر جاۓ تو چاۓ کے بغیر ہی تھکن اتر جاۓ اور یہ بھی کہ مریض کو اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ جان بچانے والے کا گریڈ 17 ہے یا 18
فیس بک کمینٹ