لاہور : پنجاب پولیس نے رائے ونڈ میں گینگ ریپ کیس میں مبینہ ملوث ہونے پر تین مشتبہ افراد کو گرفتار کرلیا، جبکہ ایک پولیس اہلکار سمیت 2 دیگر ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ رائے ونڈ سٹی پولیس اسٹیشن میں اتور کو ایک خاتون کی جانب سے پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 342، دفعہ 354 (اے)، دفعہ 375 (اے)اور دفعہ 452 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
شکایت کنندہ کا کہنا تھا کہ وہ گھروں پر کام کرتی ہیں اور اتوار کو وہ اپنے گھر میں تھیں، جب پولیس اہلکار گھر میں گھسے اور ایک بہرے لڑکے کو اپنے ساتھ لائے، انہوں نے اس کو مارنا شروع کر دیا۔شکایت کنندہ نے مؤقف اپنایا کہ پولیس والوں نے شور مچایا اور الزام عائد کیا کہ وہ جسم فروشی کا اڈہ چلا رہی ہے، جس کی انہوں نے تردید کی اور اپنے اصل کام کے بارے میں بتایا۔خاتون کا کہنا تھا کہ پولیس اہلکاروں نے ان کی بات سننے سے انکار کر دیا، دریں اثنا ایک اور اہلکار ان کے گھر میں نامعلوم شخص کے ساتھ آیا اور اسے مارنا شروع کر دیا۔
شکایت کنندہ نے کہا کہ بعد ازاں مشتبہ افراد ان کی 14 سالہ بیٹی اور بھتیجی کو ایک اور کمرے میں لے گئے اور ایک، ایک کر کے جنسی حملہ کیا۔خاتون کا مزید کہنا تھا کہ ملزمان نے واقعے کو ریکارڈ بھی کیا اور دھمکی دی کہ اگر کوئی شکایت یا مقدمہ درج کیا گیا تو وہ ویڈیوز سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دیں گے۔خاتون نے استدعا کی کہ اس کی بیٹی اور بھتیجی کا ریپ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔
آج پولیس ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ ’بروقت کارروائی‘ کی گئی اور تین مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا گیا جبکہ دیگر 2 کی تلاش جاری ہے۔مزید بتایا کہ مشتبہ افراد میں سے ایک پولیس اہلکار تھا، جو ذاتی حیثیت میں جائے وقوعہ پر گیا تھا اور واقعے کے وقت پولیس نے کوئی چھاپہ نہیں مارا تھا۔پولیس ترجمان کا کہنا تھا کہ اس سنگین واقعے کے بارے میں فوری طور پر اعلیٰ افسران کو اطلاع نہ دینے پر پوسٹ انچارج کو بھی معطل کر دیا گیا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس (ڈی آئی جی) آپریشنز تمام کارروائیوں کی نگرانی کر رہے ہیں۔ بیان میں ڈی آئی جی فیصل کامران کے حوالے سے بتایا گیا کہ چاہے کوئی شہری ہو یا پولیس افسر، کوئی قانون سے اوپر نہیں ہے، جن لوگوں نے قانون اپنے ہاتھوں میں لیا اور شہریوں کے خلاف ناانصافی کا ارتکاب کیا، وہ کسی رحم کے مستحق نہیں ہیں۔
( بشکریہ : ڈان نیوز )
فیس بک کمینٹ