’صاحب، میں نے آپ کے کہنے پر شاہد لُنڈ کو قتل کر دیا ہے۔ اب آپ مجھے تحفظ دیں۔ آپ لاہور کے افسر سے بات کریں، میں نے آپ پر اعتبار کیا ہے۔ میرا خدا جانتا ہے، اب مجھے تحفظ دیں۔ جہاں کہتے ہیں میں آ جاتا ہوں، شاہد کا قتل میں نے کردیا ہے۔‘کچے کے علاقے میں سرگرم ڈاکؤوں کے خلاف کارروائیاں کرنے والی پنجاب پولیس کے متعلقہ افسر کے لیے جمعہ آٹھ نومبر کی شب ملنے والا یہ پیغام اس منصوبہ بندی کے پایہ تکمیل تک پہنچنے کی تصدیق تھی جو پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے کچے کے علاقوں میں خوف و دہشت کی علامت سمجھے جانے والے ڈاکو شاہد لُنڈ کی ہلاکت کے لیے کی گئی تھی۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے خلاف کئی بڑے آپریشن کرنے والی پنجاب پولیس نے شاہد لُنڈ کو مارنے کے لیے نہ تو ایک گولی چلائی۔ بلکہ حکام کے بقول اس کام کو سرانجام دینے کے لیے لالچ اور گھات کا استعمال کیا اور ان کے قریبی اور بھروسہ مند ساتھی کو ان کے قتل کا ٹاسک دیا گیا جو پورا بھی ہوا۔ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر رحیم یار خان رضوان عمر گوندل کے مطابق شاہد لُنڈ کی ہلاکت پنجاب پولیس کی بہت بڑی کامیابی ہے۔
ان کے مطابق پنجاب پولیس کی جانب سے شاہد لُنڈ کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا تھا اور اسی لیے اس کے سر کی قیمت میں بھی اضافہ کیا گیا تھا۔ پولیس کے مطابق ایک بڑی رقم کا لالچ ان مرکزی وجوہات میں شامل ہے جس کا نتیجہ شاہد لُنڈ کی ہلاکت کی صورت میں نکلا ہے۔
شاہد لُنڈ کون تھے؟
شاہد لُنڈ کا تعلق پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع راجن پور سے تھا۔سوشل میڈیا پر متحرک رہنے والا یہ ڈاکو کبھی ٹک ٹاک پر ویڈیوز میں پنجاب پولیس کو چیلنج کرتا تو کبھی علاقے کے طاقتور سرداروں کو دھمکیاں دیتا نظر آتا تھا۔اور تو اور کبھی کبھی وہ پاکستان تحریکِ انصاف کے زیرِ حراست بانی عمران خان کی حمایت میں بیان دیتے بھی نظر آتے جس کی وجہ سے عوام کی ایک بڑی تعداد انھی سوشل میڈیا پر فالو کرتی تھی۔
ایس ایچ او جام عبد الغفار نے بی بی سی کو بتایا کہ شاہد تحصیل روجھان کے علاقے کچہ لُنڈ میں پیدا ہوا تھا اور جوانی میں ہی اس نے جرائم پیشہ لوگوں سے رابطے استوار کر لیے تھے۔پولیس ریکارڈ کے مطابق ان کے خلاف دہشت گردی، اغوا برائے تاوان، بھتہ، قتل اور چوری جیسے جرائم کے 35 مقدمات درج تھے اور صوبائی محکمۂ داخلہ نے ان کے سر کی قیمت ایک کروڑ روپے مقرر کر رکھی تھی۔
کچہ کے رہائشی میرل مینجر نے بی بی سی کہ بتایا کہ ’شاہد نے تقریباً 15 برس قبل جرائم کی دنیا میں قدم رکھا تھا جب اس نے آپس کی لڑائی میں جانو عمرانی اور خانو عمرانی نامی افراد کو قتل کر دیا تھا۔ پھر وہ جان بچانے کے لیے سندھ بھاگ گیا تھا اور وہاں ڈاکوؤں کے پاس پناہ لے لی تھی۔
’عمرانی قبیلہ اور پولیس اس کے پیچھے تھی لیکن اس نے سندھ میں مضبوط مراسم قائم کیے۔ طاقت حاصل کرنے کے بعد وہ پنجاب کے کچے میں پہنچ گیا اور یہاں قتل اور اغوا برائے تاوان کا سلسلہ شروع کر دیا اورقابل سکھانی اور وہاب سکھانی کے ساتھ شامل ہو گیا۔‘جام عبدالغفار کا کہنا ہے کہ ’ابتدا میں قابل اور وہاب سکھانی جب کسی کو اغوا کر کے لاتے تھے تو وہ مغوی کا پہرہ دیتا تھا۔ اس کی کمیونیکشن کی صلاحیت اچھی ہونے کی وجہ سے ڈاکوؤں نے اسے مغوی کے لواحقین سے پیسوں کے سودے کے لیے رکھ لیا تھا۔
میرل مینجر کے مطابق شاہد لُنڈ ’2022 میں اپنے بھائی خدا بخش لُنڈ کے مارے جانے کے بعد بلاشرکت غیرے کچے کا ڈان بن گیا تھا۔‘
شاہد لنڈ کی ہلاکت کیسے ہوئی؟
پولیس حکام کے مطابق شاہد لُنڈ کے خلاف بھی وہی حکمتِ عملی استعمال کی گئی جو کچھ عرصہ قبل ایک اور اہم ڈاکو جانو اندھڑ کو نشانہ بنانے میں کام آئی تھی۔خیال رہے کہ گذشتہ برس جولائی میں جانو اندھڑ اور اس کے پانچ ساتھی اس گینگ کے ایک اور رکن عثمان چانڈیہ کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ شاہد لُنڈ اور انھیں قتل کرنے والا شخص آپس میں رشتہ دار تھے۔ مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ وقوعے کی شب قاتل نے شاہد لُنڈ کو اس کے گھر سے کچھ فاصلے پر بلایا اور اکیلا دیکھ کر گولیاں مار دیں اور اس کے بعد قاتل وہاں سے موٹر سائیکل پر سوار ہو کر پہلے اپنے گھر گیا اور پھرعلاقے سے چلا گیا۔
راجن پور کے ضلعی پولیس افسر دوست محمد نے بی بی سی کو بتایا کہ ’قاتل اور مقتول دونوں آپس میں رشتہ دار تھے اور جب پولیس کو علم ہوا کہ قاتل کے شاہد لُنڈ سے اختلافات شروع ہو گئے ہیں تو ہم نے اس چیز کو اپنے حق میں استعمال کیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’چونکہ ہمیں شاہد لُنڈ کے خاتمے کا ٹاسک دیا گیا تھا سو ہم نے قاتل کو اس کے خلاف درج ایک درجن سے زیادہ مقدمات ختم کرنے اور تحفظ کی ضمانت دی جس پروہ رضامند ہو گیا۔ ہم اس سے مسلسل رابطے میں تھے، وہ ہمیں پل پل کی خبر دے رہا تھا۔‘انھوں نے بتایا کہ ’قاتل نے جمعے کی صبح بھی شاہد لُنڈ کو قتل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن کامیاب نہیں ہو سکا تھا مگر رات کو وہ کامیاب ہو گیا۔ ہم نے اس کے خاندان کو پکے کے علاقے میں منتقل کر دیا تھا تاکہ انھیں نقصان نہ پہنچے۔‘
قاتل اور شاہد لُنڈ کے اختلافات کے بارے میں تفصیلات دیتے ہوئے ایک پولیس آفیسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ قاتل کا الزام تھا کہ شاہد نے اس کے بھابھی کو اغوا کیا تھا اور 15 دن گزرنے کے بعد بھی اس اس معاملے پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تھی۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ شاہد لُنڈ کے قتل کے بعد قاتل اور ایک اور ڈاکو کے درمیان ہونے والی جو ٹیلیفونک گفتگو ریکارڈ کی گئی اس کے مطابق قاتل نے جہاں شاہد پر متعدد الزامات عائد کیے وہی مذکورہ ڈاکو کو یہ بھی بتایا کہ کہ وہ اگر چاہتا تو شاہد کے ساتھ اس کے ساتھیوں کو بھی مار سکتا تھا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ڈی پی اور راجن پور دوست محمد کے مطابق شاہد لُنڈ کی لاش ان کے ساتھیوں کے پاس ہی ہے۔ ’اس کے خاندان والوں نے نہ تو ایف آئی آر کروائی نہ پوسٹ مارٹم تو پولیس کیسے لاش تحویل میں لیتی۔‘
دلچسپ امر یہ ہے کہ راجن پور پولیس ایک جانب تو شاہد لُنڈ کی اپنے ہی ساتھی کے ہاتھوں ہلاکت کی تصدیق کر رہی ہے وہیں شاہد لُنڈ کی پولیس مقابلے میں ہلاکت کا ایک مقدمہ بھی درج کیا گیا ہے۔بی بی سی کے پاس دستیاب ایف آئی آر کے مطابق ایس ایچ او نوید آفتاب اپنے تھانے کی پولیس اور تھانہ سونمیانی کے اہلکاروں کے ساتھ شاہد لُنڈ گینگ کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے چک بیلے شاہ پہنچے اور جونھی وہ دریائے سندھ کی پکٹ نبی شاہ پہنچے لُنڈ گینگ کے شاہد لُنڈ، شاہ دین لُنڈ اور خالد سمیت ایک درجن کے قریب ڈاکوؤں نے پولیس پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کا جواب پولیس کی جانب سے دیا گیا اور مقابلے کے دوران شاہد لُنڈ اپنے ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہو گیا۔
سابق آئی جی پولیس اور ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے غالب بندیشہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پولیس نے اپنے نجی مخبر ہوتے ہیں جنھیں عام زبان میں ٹاؤٹ کہا جاتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’ان ٹاؤٹس کو ڈاکوؤں کی معلومات لانے کے لیے کہا جاتا ہے جبکہ کچھ عام لوگوں کو ڈاکو بنا کے ڈاکوؤں کے گروہ میں شامل کروایا جاتا ہے۔ وہ ڈاکو نہیں ہوتے بس ایک ٹاسک کو پورا کرنے کے لیے انھیں بھیجا جا تا ہے۔
’وہ ڈاکوؤں کے ساتھ بیٹھ کر پولیس کے لیے مخبری کرتا ہے۔ ایسے مخبر ڈاکوؤں کی کمزوریوں کے اور اختلافات کے بارے ہمیں آگاہ کرتے ہیں۔ اسے ہم ہیومن انٹیلیجنس کا نام دیتے ہیں۔ ان اطلاعات کی تصدیق کے لیے ڈاکوؤں کے فون بھی ریکارڈ کیے جاتے ہیں۔‘غالب بندیشہ کا کہنا تھا کہ شاہد لُنڈ کے معاملے میں بھی بظاہر ایسا ہی ہوا ہے اور جب قاتل اور شاہد کے اختلاف کا علم ہوا تو اس کو ٹیکنالوجی کی مدد سے بھی ڈبل چیک کیا گیا پھر قاتل سے رابطہ کیا گیا۔
قاتل پولیس کی تحویل میں کیسے آیا؟
پولیس گذشتہ برس جانو اندھڑ کو ہلاک کرنے والے ان کی ساتھی اور پولیس کے مخبر عثمان چانڈیہ کو اس واقعے کے بعد علاقے سے بحفاظت نکالنے میں ناکام رہی تھی اور جب سندھ کی طرف کچے کے علاقے سے باہر نکلنے کے قریب تھے تو پولیس کے بقول راستہ بھٹک جانے پر شر برادری سے تعلق رکھنے والے ڈاکوؤں کے گھیرے میں آ گئے تھے جنھو نے عثمان چانڈیہ کو دن دیہاڑے گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔تاہم اس مرتبہ راجن پور پولیس کا دعویٰ ہے کہ وہ شاہد لُنڈ کے قاتل کو بحفاظت اس علاقے سے نکالنے میں کامیاب رہی ہے۔ڈی پی او راجن پور دوست محمد کے مطابق ’جیسے ہی قاتل نے شاہد کو مارا تو فوری طور پر اس نے ہمیں اطلاع دی پھرمیں بھاری نفری لے کر کچے کے علاقے میں پہنچ گیا۔ ہم پر لُنڈوں نے بھاری شیلنگ کی۔ یہ ہم جانتے ہیں کیسے پوری رات ہم نے کچے کے علاقے میں بھاری فائرنگ کرتے گزاری لیکن ہم اسے (قاتل کو) بغیر کسی نقصان کے بچا کر لے آئے۔ اب وہ ہماری تحویل میں ہے۔‘
فیس بک کمینٹ