برادرم جاوید یاد صاحب سے کئی برس پہلے تعارف ادبی بیٹھک کے سخنور فورم پر ہوا۔تعارف کا پہلا حوالہ ان کی شاعری اور دوسرا حوالہ ان کا سابقہ بینکار ہونا تھا۔اور وہ بھی میری طرح بنک میں اعداد و شمار کے گورکھ دھندے سے فراغت کے بعد ادبی بیٹھک کا حصہ بن کر اپنے شعری و ادبی ذوق کی تسکین کے خواہاں تھے۔جاوید یاد صاحب شاعری کے ساتھ ساتھ نثر کے میدان خاص طور پر کالم نگاری اور سفر نامہ نگاری اور گیت نگاری میں بھی اپنا ایک الگ مقام اور شناخت رکھتے ہیں۔ان کی شائع ہونے والی تصنیفات میں درج ذیل کتب شامل ہیں۔۔
1.یسوع میرا محبوب۔۔آزاد نظمیں اور خاکے
2.کھلی آنکھ کا سپنا۔۔۔۔۔۔غزلیں اور نظمیں
3.یسوع کے سنگ سنگ۔۔۔۔۔۔روحانی گیت اور ریڈیائی فیچرز
4.کب سوچیں گے ۔۔۔۔اخباری کالمز(پوسٹ گریجویٹ گرلز کالج وہاڑی سے تجزیاتی مقالہ لکھا گیا ہے)
5. پتھر،ریت اور پانی ۔۔۔۔۔سفر نامہ (پوسٹ گریجویٹ کالج وہاڑی تجزیاتی مقالہ لکھا گیا ہے
6. جو بھی کچھ ہے ۔۔۔۔۔نظمیں،غزلیں اور منتخب اشعار۔۔۔۔۔۔
دھیمے لہجے اور مزاج کے حامل جاوید یاد صاحب سے ادبی بیٹھک میں ہونے والی ملاقاتوں کے بعد پہلی بار گذشتہ روز کی قدرے تفصیلی ملاقات میں احساس ہوا کہ ملنساری اور منکسرالمزاجی ان کی شخصیت و طبیعت کی خصوصیات ہیں۔۔
جاوید یاد صاحب کی ذرہ نوازی کہ وہ دو تین دن پہلے اپنا دوسرا شعری مجموعہ "جو بھی کچھ ہے” عطا کرنے میرے غریب خانے پر تشریف لاۓ۔دوران گفتگو ان کی شخصیت کے کئی پہلو سامنے آئے۔ایک محب وطن اور حساس پاکستانی کے طور پر ان کے خیالات و تفکرات ہر انسان دوست اور امن پسند درد مند پاکستانی کی سوچ و فکر کے عکاس تھے۔۔جاوید یاد صاحب نے اپنی شعری مجموعے ” جو بھی کچھ ہے” کے علاوہ دیگر احباب کی کتب بھی عطا کیں۔۔”جو بھی کچھ ہے”پر معروف دانشور استاد ادیب و نقاد محترم جناب ڈاکٹر انوار احمد نے بہت خوبصورت تعارف تحریر کیا ہے جس کے بعد ” جو بھی کچھ ہے” پر کچھ کہنا میرے لیۓ ناممکن ہے سوائے اس کے کہ جاوید یاد صاحب کی شاعری انسان دوستی اور امن و آشتی کی پیام بر ہے۔۔مزید یہ کہ "جو بھی کچھ ہے”۔۔۔محبت کا پھیلاؤ ہے اور یہ پھیلاؤ ہر شے کو اپنی آغوش میں سمیٹ لینا چاہتا ہے۔۔۔یہ شعری مجموعہ معروف شاعر و ادیب اور دانشور رضی الدین رضی کے اشاعتی ادارے گردوپیش پبلیکیشنز نے شائع کیا ہے۔۔رضی الدین رضی کا شکریہ کہ وہ ادبی گروہ بندی سے محفوظ رہنے والے شاعروں اور ادیبوں کی اس طرح حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔۔
"جو بھی کچھ ہے” سے چند اشعار احباب کی نذر ۔۔۔۔۔
خواب ادھورے چھوڑ گیا وہ
اپنے وعدے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ توڑ گیا وہ
آؤ ہم۔۔۔۔۔۔۔ تتلیوں کے پاس چلیں
ساتھ لے کر گلوں کی باس چلیں
اب میرا ساتھ چھوڑنا نہ کبھی
وقت ہو جاۓ گا سزا کی طرح
اگر ڈس لیں تمہیں بھی کیا عجب ہے
یہ تم نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ناگ جو پالے ہوۓ ہیں
ہم سمجھتے ہیں محبت میں وفا باقی ہے
جیسے برسے ہوۓ بادل میں گھٹا باقی ہے
چند سانسیں ادھار مانگتے ہیں
ہم کہاں۔۔۔۔ بیشمار مانگتے ہیں
اپنے ماتھے کی سلوٹیں کھولو
تیرے جلوے نکھار مانگتے ہیں
فیس بک کمینٹ