رضی الدین رضی سئیں سے محبت کے بیسیوں اسباب ہیں۔ پہلا اور بنیادی تو سر انوار احمد سے جڑت ہے۔۔۔کہ ہمارے مرشد و مربی استاد محترم سے ان کی محبت مثالی ہے۔
دوسرا۔۔۔زیاں۔۔۔سے بیزاری اور صالحین سے ۔۔پروبھرا رہنا۔۔ہے۔ وردی پوشوں کے ملفوف عزائم کو آئینہ دکھانا اور کٹھور رتوں میں بھی ایقان و گیان کی شمع فروزاں کرنا۔۔کیا کیا شمار کروں ،بے شمار زاویے ہیں جو ہمیں رضی سئیں سے جڑت کا جواز فراہم کرتے ہیں۔
رضی الدین رضی ملتانی صحافت میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔مصلحت سے بے نیاز کھرے سچ کو دبنگ انداز میں قلم بند کرنا انہی کا خاصہ ہے۔صحافی ہوتےہوئے بھی لفافیوں سے ہٹ کر خودداری سے زیست کرنا انہیں اکابرین میں شمار کراتا ہے۔مزاحمت،استقامت خودداری اور صلابت فکری ان کے شخصی اوصاف ہیں۔۔رضی سئیں ہمہ جہت لکھت کار ہیں کالم نگاری اور شاعری میں ان کا جدا انگ ڈھنگ ہے۔’’ دن بدلیں گے جاناں ‘‘ ان کا اولین شعری مجموعہ ہے جو 1995میں پہلی بار منظر عام پر آیا، اب اس کا دوسرا ایڈیشن گردو پیش پبلی کیشنز ملتان کے زیر اہتمام شائع ہواہے۔۔جو کہ خوش آئیند امر ہے اور رضی سئیں کے چاہنے والوں کے لیے ایک خبر دل خوش کن ہے۔
رضی الدین رضی کی شاعری حبس رتوں میں باد بہاری کا کام کرتی ہے ترقی پسندانہ افکار کے حامل یہ شاعر بلکتی خلقت کی ماندگی کو شاعرانہ نروان سے کم کرتے اور ان کے ٹوٹتے حوصلوں کی طنابوں کو جوڑتے چلے جاتے ہیں۔وہ ریاکارانہ سماج میں حقیقت پسندی کے فروغ کے لیے شعری چراغ جلاتے چلے جاتے ہیں۔۔اور گونگے سماج کو قوت گویائی پہ مائل کرتے ہیں اور عہد حاضر کی مکر بھری چپ میں اپنی صدا سے ۔۔رجا کی شمع روشن کرتے ہیں۔
اس خامشی کے عہد میں میری صدا تو ہے
اتنے شدید حبس میں تھوڑی ہوا تو ہے
دیکھیں فصیل خامشی میں کب پڑے دراڑ
گلیوں میں ایک شور سا ہم نے سنا تو ہے
۔۔
فرعونوں کے لہجے میں بات کرتے ناخداوں کو رضی اپنی مزاحمتی فکر سے آئینہ دکھاتا ہے۔وہ نہ تو استعماری قوتوں سے مرعوب ہوتا ہے اور نہ ہی ان کی بندگی کا دم بھرتا ہے۔
سوچتے ہیں اب بسر یہ زندگی کیسے کریں
ہم بھلا ہر اک خدا کی بندگی کیسے کریں
۔۔
رضی کی شاعری میں یاسیت نہیں ہے وہ اپنے شعروں میں رجائیت سے ایسی فضا تشکیل کرتے ہیں کہ یورشوں میں گھرا انسان اس فضا سے امید تازہ کشید کرتا ہے رضی انسان کو زندگی کے روشن پہلوؤں تک لے جانے کی کامیاب سعی کرتے ہیں۔۔وہ موسموں کے تغیر کے تلازمے سے زندگی کی دھوپ چھاؤں کو ہم آمیز کر کے اپنے شعروں میں تازگی شگفتگی اور عصری آگہی کا اہتمام کرتے ہیں۔۔۔
آنکھیں بھی سچ بول سکیں گی لب سچ بول سکیں گے
سچ کہنے کا جب سیکھیں گے ڈھب سچ بول سکیں گے
ایک سا موسم کب رہتا ہے دن بدلیں گے جاناں
اور پھر اک دن وہ آئے گا سب سچ بول سکیں گے۔۔۔
۔۔
دن بدلیں گے جاناں۔۔۔کی غزلیہ شاعری اور نظمیہ شاعری آج بھی تروتازہ اور relevant ہے۔
رضی الدین رضی کی شاعری رومان اور مزاحمت کا حسین امتزاج ہے۔وہ ایک بڑے اور اہم لکھنے والے ہیں اس کی شعری و صحافتی عظمت اس کے رتجگوں کی رہین منت ہے۔کسی شاہ مدار کی کاسہ لیسی کے سبب سے نہیں ۔
فیس بک کمینٹ