راؤ محمد اسدسرائیکی وسیبلکھاری
ملتان میں پہلا کل پاکستان ہریانوی مشاعرہ ۔۔ راؤ محمد اسد

ہریانوی ادبی و ثقافتی تنظیم ـ”نوھرہ“ کےزیر اہتمام ملکی تاریخ کے پہلے کل پاکستان ہریانوی مشاعرے کا انعقاد کیا گیا۔ ملتان ٹی ہاؤس میں منعقد ہونے والے اس ہریانوی مشاعرے میں ملک بھرکے علاوہ بیرون ملک سے بھی شعراء کرام اور سامعین کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔قیام پاکستان کے بعد ملتان میں ہونے والے ہریانوی مشاعروں کا تاریخ میں احوال ملتا ہے ۔ بعد ازاں یہ سلسلہ موقوف ہو گیا ۔ ایک طویل عرصہ کے بعد منعقد ہونے والے اس مشاعرے میں ہریانوی ادب سے منسلک شعراء کرام کا وہ کلام سامنے آیا جسے سن کر بلاشبہ کہا جاسکتا ہے کہ ہریانوی زبان بھی خطے کی دیگر زبانوں کی طرح نہ صرف میٹھی ہے بلکہ تہذیب و ثقافت کےلحاظ سے مؤ ثر اور طاقتور بھی ہے۔یہی وجہ تھی کہ مشاعرہ پانچ گھنٹے سے زیادہ جاری رہا۔ جس میں خواتین نے بھی کثیر تعداد میں شرکت کی۔ممبر صوبائی اسمبلی رانا محمود الحسن نے بھی خصوصی طور پر شرکت کی۔ صدر محفل اختر دولتالوی نے محرم الحرام کی مناسبت سے شہدا ء کربلا کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کلام کا آغاز کیا۔ـ
بی بی فاطمہ کے آنکھ کے تارے حسین نے
امت پہ اپنےسانس بھی وانرے حسین نے
جانا ہے جس نے جاؤ یوہ کہنے کےبعد پھر
دیوے پہ پھونک مار دی پیارے حسین نے
آفتاب عارش نے کلام پیش کیا
اپنے دل کی کالس نے نیوں دھوریا سوں
میں شبیر کے دکھ میں بیٹھا رو ریا سوں
دنیا کے کسی بھی خطے میں ہونے والے ظلم جبر اور بربریت کے خلاف ادب سے وابستہ شخصیات نے ہمیشہ آواز بلند کی ہے۔ ان کا تعلق خواہ کسی زبان و نسل سے ہو یہی وجہ سے کہ مشاعرے میں برما میں مسلمانوں پرہونےوالے قتل عام کا ذکر کرتے ہوئے اللہ کی مددو نصرت کی طلب میں ایک قطعہ پیش کیا گیا
تنے لاگے سے جو بہتر او بھیج بھی دے
جونجاں میں پھر دے کےکنکر بھیج بھی دے
بوٹی بوٹی ہو رے مانس برما میں
ایب ابابیلاں کا لشکر بھیج بھی دے
اسی طرح تکمیل پاکستان کےلئے کشمیر کے حصول کے علاوہ جوا ں مردی کےساتھ ہمسایہ ملک کو اپنے مخصوص ہریانوی لہجے میں للکارتے ہوئے کہا گیا کہ
الجھا تانا بانا بھی آؤے سے سلجھانا بھی
تیئں کرریا سے کشمیر کی بات لیں گے ہم ہریانہ بھی
مشاعرے میں رانا نوشاد قاصر نے ترنم کےساتھ اپنا پیار بھرا گیت پیش کیا تو پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ ہریانوی زبان کانوں میں رس گھولنے کے علاوہ دل کے راستہ انسان کی روح میں اترنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔ ان کے گیت کے بول تھے
جیا گیت ملن کے گاؤے ری جد سامّن گِھر گِھر آوّے ری
یاد پیا کی چاندنی بن کے بند پلکاں کے مانہہ کو چھن کے
منّے ساری رات ستاوّے ری جد سامّن گِھر گِھر آوّے ری
ارشد مجروح نے کلام سنایا
گَم کا دِیوا روج جلا دے اپننے گھر کی دہلی پہ دُکھ کا میلا روج لگاوے اپننے گھر کی دہلی پہ
خواب غفلت میں پڑی قوم کو جگانے کے حوالےسے پیش کئےجانے والے کلام میں نئے موسموں کی آمد ، پرندوں کی چیچہاہٹ کا ذکر کیا گیا؎
میں کد کا رُکے دے ریا سوں تھم نے جاگن کی رُت آلی اور تھم سو رے سو
اور
تڑکے تڑکے ایک مڑی سی چڑیا نے اپنی قوم جگالی اور تھم سو رے سو
وطن عزیز کے دولخت ہونےکے دکھ کا بھاری پتھر سینے پر رکھتے ہوئےایک شاعر نے شعر پیش کیا
تھارے دکھ نہ ہویا کیڑی جتنا بھی اپنی بانہہ تڑوالی ار تھم سو رے سو
ماں بولی سے پیار انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ کیونکہ ماں بولی انسان کی پہچان ہے۔ کہا جاتا ہےکہ جب کوئی بھی شخص اپنی ماں کو نہیں چھوڑ سکتا تو ماں بولی کو کس طرح بھلا سکتا ہے۔ کواّ اور مینا بے شک ساتھ رہیں لیکن دونوں اپنی اپنی ماں بولی میں بولتے ہیں۔ ماں بولی کی اہمیت اجاگر کرنے کے حوالے سے میر صدیق نے اپنا کلام سنایا
سارے بھائی رل مل کے پرچار کرنیے ساں
آپنی ماں بولی سے سارے پیار کرنیے ساں
رزق حلال کے حصول ، ملکی صورتحال اور آئےروز احتجاجی مظاہروں پر روشنی ڈالتے ہوئے مشتاق ظفر میلسی نےکہا
کوئے بھی میری بات نہیں سندا جِد تائیں پہیا جام نہیں کردا
عین عبادت سمجھن آلا اپنا رِجک حرام نہیں کردا
ہر دور میں ہونے والی شاعری اپنے معاشرے کے حالات واقعات اچھائی اور برائیوں کو لازمی لفظوں میں پرو کر اسے تاریخ کا حصہ بنالیتی ہے۔ جیسے اس کلام میں بتایا گیا ہے
دیکھ کے ہویا دل حیران تیری قسمت پاکستان
افسر کچھ سرکاری دیکھے کرتے مارا ماری دیکھے
گرد اور پٹواری دیکھے رشوت لیتے بھاری دیکھے
سارے لگ رے مال بنان یوہ سے مہارا پاکستان
مشاعرےمیں قیام پاکستان کے وقت پیش آنےوالے واقعات ، مہاجرین کی قتل و غارت گری، دکھ تکلیف اور قربانیوں کا ذکر کر کے پاک سرزمین سے پیارو حب الوطنی کا ذکر بھی نمایاں تھا
ایک بار پاچھے مار دھیان ارنیوے بن گیا پاکستان؟
بھاری بھاری درخت ہالے خون کے بھر بھر کھالے چالے
چاروں کانی برچھی بھالے ارے اتنے دکھ یہ کس نے جھالے
چھاتی ایک ار سو کرپان ارے نیوے بن گیا پاکستان؟