آج دوستوں، محسنوں اور مداحوں نے ساقی فاروقی کو بوجھل دل کے ساتھ لحد میں اتاردیا۔ کیسا طنطنہ تھا کبھی اور کیسا دبدبہ، آج آنکھیں موندے خاموشی سے تہ خاک ہوگیا۔ وہ اپنی تواناشاعری اور اتنے ہی توانا لب و لہجے کے لئے بہت بہت یاد رکھا جائے گا۔ ساقی کا شمار ان گنے چنے شاعروں میں ہوتا ہے جنہوں نے شعر گوئی کی لگی بندھی ڈگر کو چھوڑ کر اپنی ہی تراشی ہوئی نرالی راہیں نکالیں، کچھ ایسے کہ کوئی دوسرا اس رہگزر پر چلا تو اس کے پاؤں جلے۔ آج جس وقت اس کی میت قبرستان لے جائی جارہی تھی، میری نگاہ آن کی آن میں کوئی ساٹھ برس پیچھے لوٹ گئی جب ہم دونوں جوان تھے۔ میں کراچی کی برنس روڈ سے شاخ کی طرح نکلنے والی رابسن روڈ پر حامد یار خاں کے ساتھ کام کرتا تھا ۔ وہ دو رسالے نکالتے تھے، ایک بچّوں کا اور دوسرا بڑوں کا۔ ساقی کبھی کبھی وہاں آتا اور حامد صاحب کو اپنی لکھی ہوئی تازہ غزل دے جاتا جسے وہ بڑے اہتمام سے بڑوں کے رسالے میں چھاپتے تھے۔ میں ان سے لے کر غزل پڑھتا اور مجھے ہر بار اپنا یہ کہنا یاد ہے کہ یہ شخص اتنی عمدہ شاعری کرتا ہے، اس گلی میں بہت سارے رسالے نکلتے ہیں، جیسے نقاد، رومان اور افکار، یہ اپنی غزلیں وہاں کیوں نہیں چھپواتا۔ حامد صاحب کہا کرتے کہ وہاں بھی چھپواتا ہے ، اور وہ کبھی انکار نہیں کرتے۔ میرے وجہ پوچھنے پر وہ بتاتے کہ یہ ساقی فاروقی ہے، ابھرتا ہوا شاعر۔ یہ سرکار کے اس ادارے میں ملازم ہے جو ادارہ اخباروں اور رسالوں کو اخباری کاغذ کے پرمٹ جاری کرتا ہے۔ اس لئے ہر اخبار یا رسالہ ساقی کی چیزیں بہت جی لگا کر شائع کرتا ہے۔اس کے بعد میں ایک بڑے روزنامے سے وابستہ ہوگیا جہاں اس دور کے ایک اور شاعر اطہر نفیس بھی ملازم تھے۔ ساقی ان سے ملنے آتا تو میرا آمنا سامنا بھی ہوجاتا۔ وقت کروٹیں بدلنے سے کب باز رہا ہے، میرے ادارے کے کئی ساتھیوں کی طرح ساقی بھی برطانیہ کو سدھار گیا۔ کچھ عرصے بعد میں بھی ترک وطن کی اسی لہر میں بہہ کر ’ ہم انگلستان دیکھیں گے‘ کا ورد کرتا ہواسات سمندر پر جا پہنچا۔ بی بی سی کی ملازمت تھی اور بیوی بچّوںکا آنا بھی طے تھا۔مجھے مکان کی تلاش تھی۔ ان دوران ساقی سے ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں۔ اسے پتہ چلا تو اس نے کہا کہ میرے گھر کے قریب تمہارے ایک اور ساتھی کا گھر خالی ہے اور انہیں کرایہ دار کی تلاش ہے۔ پھر کیا تھا ،میں اس گھر میں اتر گیا۔اس طرح میں اور ساقی فاروقی محلے دار ہوگئے۔ اب میرے کنبے کو آنا تھا۔ اس مرحلے پر ساقی کی بیوی جس کانام گُنڈی سن کر اکثر لوگ مسکرایا کرتے تھے، میری مدد کو آئی اور ساقی نے بھی ہاتھ بٹاکر گھر کو اس طرح جمایا کہ کوئی کنبہ اس میں آئے تو اسے وہ ٹھکانا اجنبی نہ لگے۔ آخر میری بیوی اور تینوں بچوں کے لندن آنے کا دن آپہنچا۔ میں نے ساقی سے کہا کہ تم نے کار چلانا سیکھ لی ، چلو ہم دونوں ہوائی اڈے چل کر ماہ طلعت اور بچوں کو لے آئیں۔ اس وقت ساقی نے کمال کا ساتھ نبھایا۔ وہ آمادہ ہوگیا حالانکہ وہ زندگی میں کبھی لندن کے ہوائی اڈے تک نہیں گیا تھا اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اس نے موٹروے پر ایک بار بھی کارنہیں چلائی تھی۔ سخت جاڑے تھے اور میں بچوں کے لئے گرم کوٹ اٹھائے چل رہا تھا۔ ہم ان سب کو گھر لے آئے جہاں ساقی کی بیوی ہماری راہ دیکھ رہی تھی۔ ذرا ہی دیر میں سب کا ایک دوسرے سے تعارف ہوگیا اور خاص طور پر ماہ طلعت اورگُنڈی کی ایک دوسرے کے لئے گرمجوشی دیکھنے کے قابل تھی۔ اس نے میرے بال بچوں کو برطانیہ میں رہنے کے گُر سکھائے، ہمیں بیش قیمت مشورے دئیے اور لند ن شہر سے واقف کرایا۔ ساقی اورگُنڈی اکثر شام کو ہمارے ہاں آجاتے، ہم لوگ مل کر پکاتے اور کھاتے اور دیر دیر تک باتوں کا دور چلتا۔ وہ وقت تھا جب میںنے ساقی کو قریب سے دیکھا۔ وہ انسان نہیں، ایک بے چین روح تھا۔ اسے زندگی کے ہر لمحے کو کسی نہ کسی طرح کارآمد بنانا تھا۔ یہی حال اس کے ذہن کا تھا جو ایک روز بھی چین سے نہ بیٹھا۔ شعر کہنا تو اس کی فطرت میں شامل تھا، اور کچھ نہیں تو اکابرین سے خط و کتابت میں دھیان لگا رہتا۔ایک زمانے میں مصوری شروع کردی۔ جب کرنے کو کچھ اور نہیں رہا تو ایک ناول لکھنے لگا۔ تحریر کے معاملے میں اس کا قلم بے لگام تھا۔ جس طرح سوچتا تھا، ویسے ہی لکھ ڈالتا تھا۔ جو اچھا لگا اس پر واہ وا ہ کی اور جسے ساری دنیا سراہتی رہی لیکن ساقی کی سمجھ میں نہ آیا تو اس نے ذرا سی بھی رعایت نہیں کی۔ یہی حال اس کے زیر تصنیف ناول کا تھا۔ اتفاق سے ان ہی دنوں میرے بزرگ سسر کراچی سے آگئے۔ ساقی نے ان سے بھی گہری دوستی کرلی، اتنی گہری کہ اس نے اپنے اس بے باک اور تکلفات سے بے نیاز ناول کا مسودہ بزرگوار کو تھما دیا کہ اسے رات کی تنہائی میں پڑھئے گا۔ انہوں نے پڑھا۔ خاموش رہے اور جس احتیاط سے لیا تھا، اسی احتیاط سے لوٹا دیا۔ ان ہی دنوں بریڈ فورڈ سے مقصود الٰہی شیخ پندرہ روزہ رسالہ راوی نکالتے تھے۔ اس میں انہوں نے قارئین کے خطوں کے لئے ایک صفحہ مخصوص کردیا جس کا عنوان یوں جمایا: ’’دل میں نہ رکھئے، راوی میں لکھئے۔‘‘شیخ صاحب نے خط لکھنے والوں کوبڑی فراخ دلی سے یہ رعایت دی تھی۔ انہیں کیا خبر تھی کہ لکھنے والوں میں ساقی فاروقی بھی ہیں جو بات کو دل میں رکھنے کے ازلی دشمن ہیں۔ ساقی نے راوی کے اُس محاذ آرائی والے صفحے پر جب اپنی دو دھاری تلوار سونتی تو کسی کو نہ بخشا۔ مگر شاباش ہے ایڈیٹر صاحب کو جنہوں نے خاص طور پر ساقی کے کھلے کھلے اعتراف بھی جو ں کہ توں چھاپ دئیے اور یہ سلسلہ دیر تک چلا۔ اسی دورا ن ساقی نے شاعری کے علاوہ کافی نثر لکھی اور بارہا دل کی بھڑاس نکالی۔ اکابرین کے نام خطوں میں اس نے جیسے جیسے مباحثے چھیڑے اور جن سے خفا ہوا ان کے جس طرح لتّے لئے، سچی بات یہ ہے کہ انہیں پڑھنے کا اپنا ہی لطف ہے۔
ہرا یک کا دوست تھا اور وہ بھی بہت اچھا۔ میری بیوی ماہ طلعت کو سب ماہے یا ماہِ کہا کرتے ہیں، جب بھی سامنا ہوتا ،ہمیشہ کہا کرتا:گاہِ گاہِ ملا کرو ماہِ ۔ذہن غضب کا تخلیقی تھا۔ ہر وقت ارادے باندھتا ہوگا اور وہ بھی اتنے سارے کہ کتنے ہی تو ادھورے رہ گئے۔ مصوری شروع کی تھی، مکمل نہ ہوئی۔ ناول لکھنا شروع کیا، ادھورا ہی رہا، آخر عمر میں خود اپنی جان لینے کی کوشش کی، وہ بھی کچھ نامکمل سی رہی ۔ اسپتال لے جایا گیا۔ ڈاکٹروں نے جان تو بچالی مگر بدن تو پھر بدن ہے، پوری طرح سنبھل نہ سکا اور عرصے تک دکھ اٹھائے۔ اسی دوران بیوی گُنڈی چل بسی۔ اسے دفن کرنے کسی طرح قبرستان گیا اور اسے لحد میں اتارتے ہوئے وہ نظم پڑھی جو گُنڈی کو بہت پسند تھی۔ پھر خود بھی مرگیا اور اپنے دکھ اپنے مداحوں اور چاہنے والوں کو دے گیا۔ یادآئے گا۔
مورخہ 23جنوری سنہ 2018۔لندن
(بشکریہ : روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ