بالآخر وہی ہؤا جو اب تک ہوتا چلا آرہا ہے۔ کہ اسلام کا علم بلند کرنے کے دعویدار اور ملک میں شریعت اسلامی نافذ کروانے کا وعدہ کرنے والے ’نیک طینت اور پر عزم‘ دینی رہنما بالاآخر سیاست دانوں کے جل میں آکر احتجاج کا راستہ ترک کرکے صلح صفائی سے کچھ لو اور کچھ دو کے اصول کو تسلیم کرتے ہوئے معاملہ طے اور تنازعہ حل کرنے پر راضی ہوگئے۔ ا س بار سرگودھا کے معمر مگر جواں حوصلہ پیر حمیدالدین سیالوی کی باری تھی اور ملک میں شریعت نافذ کروانے کا نوٹس صرف وزیر اعلیٰ پنجاب کے پیر صاحب کے دولت خانہ پر حاضری کی ’مار‘ تھا۔ اب گھر آئے مہمان کو کون انکار کرتا۔ یہ بنیادی اسلامی ’تعلیمات ‘ اور بزرگان کی روایت کے خلاف ہوتا۔ ویسے تو یہ پیر صاحب اس سے پہلے وزیر اعلیٰ پنجاب کے کئی ایلچیوں اور پیغام بروں کو دروازے پر آنے اور منت سماجت کے باوجود دھتکار چکے تھے اور اپنے اس مطالبے پر قائم رہے تھے کہ وہ حرمت رسولﷺ کی حفاظت اور ختم نبوت کے مطالبہ سے ایک قدم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ اسی لئے فیض آباد میں دھرنا دینے والوں کی طرف سے احتجاج ختم کرنے اور وفاقی حکومت کو وزیر قانون کا استعفیٰ پیش کرنے کے بعد معاف کرنے پر راضی ہونے کے باوجود ، پیر حمیدالدین اپنی دھن کے پکے نکلے اور کسی صورت اس مطالبہ سے دست بردار ہونے پر آمادہ نہیں ہوئے کہ پنجاب کے ’گستاخ‘ وزیر قانون کی معافی یا استعفیٰ کے بغیر حفاظت حرمت رسولﷺ کا مقصد پورا ہو سکتا ہے۔ رانا ثنا اللہ سے یہ ’فاش غلطی‘ سرزد ہو چکی تھی کہ جس وقت ملک کے شعلہ بیان بلکہ دشنام بزباں مقررین کرام ختم نبوت کے لئے جانیں قربان کرنے کے دعوے کررہے تھے ، عین اس بیچ انہوں نے یہ اعلان کردیا کہ احمدی بھی اس ملک کے شہری ہیں اور انہیں بھی باقی تمام شہریوں کی طرح مساوی شہری حقوق حاصل ہیں۔
جو پیر اور دینی رہنما، تمام غیر مسلموں کو ہی نہیں بلکہ اپنے مسلک اور عقیدہ سے اختلاف کرنے والوں کو بھی اس ملک تو کیا اس دنیا میں زندہ رہنے کا حق دینے کے لئے تیار نہیں ہوتے ، وہ کیوں کر اس بات کو تسلیم کرسکتے تھے کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کا وزیر قانون ایک معتوب اقلیت کو زندہ رہنے کا ہی نہیں بلکہ مساوی شہری حقوق دینے کی بات کرتا پھرے۔ ایسی حکومت اور ایسا وزیر ان بزرگوں کے ہوتے کیسے اپنی زبان دراز کرسکتا تھا۔ اس لئے پیر حمیدالدین نے فیض آباد دھرنے کے لیڈروں کی ’سادہ لوحی‘ کو بھانپ لیا اور نہات زیرکی سے رانا ثنااللہ کے جرم کی نشاندہی کرتے ہوئے ایک نیک پیر اور گدی نشین کی طرح اس مسئلہ کو سامنے لانے کے علاوہ یہ بھی بتا دیا کہ اس ’گناہ کبیرہ‘ کا کیا کفارہ ہو سکتا ہے۔ بس رانا ثنااللہ کو یہ کرنا تھا کہ یا تو وہ وزارت چھوڑ کرباقی ماندہ زندگی گناہگار کے طور پر گزارتے یا پیر صاحب کی خدمت عالیہ میں حاضر ہو کر ٹیلی ویژن کیمروں کے سامنے یہ اعتراف کرتے کہ پیر سیالوی کی روحانی سرپرستی میں وہ اپنی غلطی کا احساس کرتے ہوئے احمدیوں کی ’حمایت‘ سے تائب ہو چکے ہیں۔ بہرحال علمائے کرام چونکہ یہ طے کرچکے ہیں کہ کسی غلطی پر نکاح ٹوٹنے کے علاوہ کسی گمراہ کا ایمان بھی باطل ہوجاتا ہے ، اس لئے رانا ثنااللہ کو یہ آسان حل تجویز کیا گیا تھا کہ وہ جس وقت پیر صاحب کے روحانی فیض سے سیراب ہونے کے لئے سرگودھا آئیں اور ٹیلی ویژن کیمروں کے سامنے اپنی غلطی کا اعتراف کریں تو لگے ہاتھوں اپنا ایمان بھی تازہ کرلیں اور کلمہ طیبہ پڑھ کر اور حضرت محمد ﷺ کو آخری رسول ماننے کا از سر نو اعلان کرکے اپنی ’مسلمانی‘ بحال کروالیں۔ ماضی میں سپاہ صحابہ کے بزرگوں کی صحبت سے استفادہ کرنے کی شہرت رکھنے والے رانا ثنااللہ اور ان کی سرپرست پنجاب حکومت کو اتنا آسان حل بھی سمجھ نہیں آیا جس کے بعد پیر حمیدالدین کو یہ باور کروانا پڑا کہ وہ محض دینی اور روحانی پیشوا نہیں ہیں بلکہ سیاسی اقتدار کے نشے میں دھت حکمرانوں کو سیدھا کرنے کے لئے وہ درجن بھر اراکین اسمبلی کو بھی اپنی مٹھی میں رکھتے ہیں۔ اگر سیدھی انگلی سے گھی نہ نکلا تو پیر صاحب کو سادہ لوحی کے باوجود انگلی ٹیڑھا کرنا بھی آتی ہے۔
اس قہر کا مظاہرہ چند ہفتے قبل فیصل آباد میں ایک جلسہ عام میں کیا گیا جس میں پیرسیالوی نے اپنی عوامی مقبولیت کا ڈھنڈورا پیٹنے کے لئے صوبے بھر سے عاشقان رسولﷺ اور اپنے فدائیوں کو جمع کیا تھا تاکہ شہباز شریف اور ان کے حواریوں کو کان ہوجائیں ۔ مزید انتباہ کے لئے پانچ اراکان اسمبلی کے استعفوں کا اعلان بھی کردیا گیا۔ اس دوران شہباز شریف قومی اہمیت کے بعض اہم امور نمٹانے کے لئے سعودی عرب تشریف لے گئے تھے لیکن پیر صاحب کی ’غلط فہمی‘ دور کرنے کے لئے انہوں نے مواصلت کا سلسلہ بند نہ کیا۔ لیکن پیر صاحب بھی کچی گولیاں نہیں کھیلے تھے۔ انہوں نے بھی انگریزی محاورے کے مطابق ’سارے انڈے ایک ہی ٹوکری میں نہ رکھنے‘ کا فیصلہ کرتے ہوئے دوسری سیاسی جماعتوں سے رابطہ کرنے اور مسلم لیگ (ن) کا متبادل تلاش کرنے کے لئے کوششیں تیز کردیں۔ لیکن لگتا ہے کہ کوئی دوسری جماعت پیر حمیدالدین کو کسی بہتر ’پیکیج‘ کی پیشکش کرنے پر تیا رنہیں ہوئی۔ اس لئے مجبور ہوکر اس ہفتہ کے شروع میں پیر صاحب نے لاہور میں ختم نبوت کانفرنس کا انعقاد کیا اور لبیک تحریک اور سنی تحریک کے تعاون سے جمع کئے جانے والے اجتماع میں واضح کردیا کہ اب علما و مشائخ کا یہ راست باز گروہ ملک میں شریعت کے نفاذ تک چین سے نہیں بیٹھے گا۔
پیر صاحب کو اپنی مقبولیت اور طاقت کا یقین تھا اور ان کا مقصد نہایت ارفع تھا۔ اس لئے انہوں نے حکومت کو زیادہ مہلت دینے کی بھی ضرورت محسوس نہ کی بلکہ واضح کیا کہ اگر ایک ہفتہ کے اندر ملک میں اسلامی شریعت نافذ نہ کی گئی تو ملک بھر میں ’عشاق رسولﷺ‘ گلی گلی کوچے کوچے میں مظاہرہ کریں گے اور حکومت کو گھنٹے ٹیکنے پر مجبور کردیں گے۔ شہباز شریف نے قصور کی زینب کے قاتل کو گرفتار کرنے کے اہم کام سے فارغ ہونے کے بعد بالآخر محسوس کیا کہ کہیں پیر صاحب کا احتجاج ان کی حکومت کے خاتمہ اور شریعت اسلامی کے نفاذ کا سبب ہی نہ بن جائے لہذا انہوں نے ایک شاطر سیاست دان کی طرح گھٹنے ٹیکنے کی بجائے سرگودھا جاکر پیر صاحب کے گھٹنے پکڑنے کا فیصلہ کیا۔ اور پیر صاحب کو صوبے کے حاکم کا کہا ماننا پڑا۔ اس طرح ایک ہفتہ کے اندر شریعت نافذ کرنے کا مطالبہ واپس لے لیا گیا تاکہ کہیں حکومت کو مجبور ہو کر واقعی اسلامی نظام نافذ ہی نہ کرنا پڑجائے۔
ملاقات کے بعد شہباز شریف نے پیر صاحب کے فیصلہ کا اعلان کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ مخالف سیاسی عناصر اور ایک مخصوص مذہبی طبقہ کی طرف سے غلط فہمیاں پیدا کی گئی تھیں جس کی وجہ سے پیر صاحب مسلم لیگ (ن) سے ناراض ہو گئے تھے۔ تاہم اب یہ ناراضگی ختم ہو گئی ہے اور پیر حمید الدین سیالوی ان کی اپیل پر احتجاج کی کال واپس لینے پر راضی ہو گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وزیر اعلیٰ نے پیر صاحب کے مطالبات پر غور کرنے کے لئے پیر حمیدالدین ہی کی سرکردگی میں ایک کمیٹی بنانے کا اعلان کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ختم نبوت پر ہر مسلمان کا ایمان ہے اس لئے اب احتجاج کی بجائے ختم نبوت اور سیرت النبی کانفرنس منعقد ہوگی۔ سیاست اور شریعت کے اس ملاپ سے یہی خیر برآمد ہو سکتا تھا ۔ شہباز شریف ، پیر حمیدالدین کے تعاون سے اس خیر کواحسن طریقے سے سامنے لے آئے ۔ ا ب انہوں نے عوام سے اپیل کی ہے کہ ان مجوزہ کانفرنسوں میں بھرپور شرکت کرکے اپنی نیکی کا ثبوت دیں اور ختم نبوت پر ایمان کو تازہ کرنے کا اہتمام کریں۔
ملک میں شریعت کے نفاذ کا انتظار کرنے والے ابھی توقف کریں تاآنکہ کسی دوسرے پیر یا مذہبی رہنما کو کسی ضرورت کے تحت پھر سے شریعت کے نفاذ کا مطالبہ یاد نہ آجائے۔ فی الحال شریعت کا نفاذ مؤخر کرنے اور کانفرنسیں منعقد کرنے کا موسم آگیا ہے۔ ایک پیر کی شریعت صوبے کے شاطر سربراہ حکومت کی سیاست سے ہار گئی ہے۔ اس ہتھ جوڑی میں بھی ملک کے عوام کی اسی طرح شکست ہے جس طرح ان قوتوں کے تصادم میں تھی۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ