اردو زبان اب کے ہمیں اٹلی لے گئی۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ یورپ کے اس ملک میں اردو بولنے اور سمجھنے والوں کی بڑی تعداد آباد ہے۔ ہم پر بھی یہ حال اس وقت کھلا جب چار دنوں میں ہمیں چار مشاعرے سننے کو ملے۔ پانچویں کی بھی تیاری تھی لیکن یہ زبان اتنے مشاعروں کی تاب نہیں لا سکتی۔ ہم جب بھی یہ سنتے ہیں کہ سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے تو خیال آتا ہے کہ مشاعرے نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا۔ اردو اگر زندہ و تابندہ ہے تو غزل کے بل بوتے پر ۔ دنیا کہیں سے کہیں نکل گئی پر غزل ہماری جہاں تھی پنجے گاڑ کر وہیں کھڑی ہے اور ہمارا بے مثال شاعر اس میں ایسے ایسے نئے پہلو دریافت کر رہا ہے کہ اس کے رخ پر کالا تل لگانے کو جی چاہتا ہے کہ کہیں نظر نہ لگے۔
اب کوئی پوچھے کہ اٹلی میں جہاں کی مافیا اور سنگ مرمر مشہور ہے، اردو زبان کا کیا کام؟جواب اس کا یہ ہے کہ شکم کی آگ کہہ لیجئے یا کچھ اور، لوگوں کو دنیا کے ایسے ایسے گوشوں میں لے گئی ہے کہ جہاں دیکھئے اردو کا شعلہ درخشاں ہے۔اٹلی کے شہر میلان کے ایک شاندار طعام خانے میں اردو کے مشاعرے کا اہتمام تھا۔ بڑے سے ہال میں بہت سی کرسیاں آراستہ تھیں ۔ خیال تھا کہ ملک ہے اٹلی، زبان ہے اردو، اس کے نام پر اتنا مجمع کہاں سے آئے گا۔ دیکھا تو چار جانب سے حاضرین مشاعرہ آگئے۔ اگرچہ اردو مشاعرے میں پنجابی کا تڑکا لگا ہوا تھا اور کتنے ہی حاضرین کی پنجابی سے وابستگی نظر آتی تھی مگر سچ تو یہ ہے کہ مشاعرے پر اردو غزل ہی کا راج تھا۔ اوپر سے دیوار پر پاکستان کا قومی پرچم بھی آویزا ں تھا اور اسٹیج پر پاکستان کے ایک سفارت کار بھی بیٹھے تھے۔ اس کے باوجود وہی جانا پہچانا منظر تھا۔ کبھی گل کے نغمے تو کبھی رخسار کے ترانے۔ کبھی دیدہ تر کا رونا او ر کبھی دل ناداں سے گلہ۔جب نصف سے زیادہ مشاعر ہ یوں گزر گیا اور پاکستانی سفارت کار چپ رہے تو مجھے مداخلت کرنی پڑی اور میں نے بلند آواز سے کہا کہ یوم آزادی ابھی ابھی گزرا ہے ، موقع کی مناسبت سے وطن سے محبت کی بات ہونی چاہئے تھی، یہاں تومسلسل عورت سے عشق کی گفتگو ہو رہی ہے۔ میری اس بات کی تائید میں حاضرین نے جو نعرہ لگایا اس کے بعد مشاعرے کی فضا بھی بدل گئی اور ماحول نے بھی اپنا رخ بدلا۔ اس وقت تک سینئر شاعروں کی باری آچکی تھی جنہوں نے وطن اور قوم کے موضوع پرکلام پڑھا اور پھر تو آخر تک نعرے لگتے رہے۔
زبان و ادب کی اس تحریک میں یورپین لٹریری سرکل کا دخل تھا جسے آپ چاہیں تو یورپی دائرہ ادب کہہ لیں۔ یہ ادب سے لگاؤ رکھنے والوں نے یورپ میں اپنی ایک تنظیم بنا لی ہے جس کے اغراض و مقاصد کو دیکھیں تو تمنّا کا دوسر ا قدم دیکھنے کی حاجت نہ رہے۔ مثال کے طور پر اس تنظیم کے نصب العین میں ادیبوں اور مصنفوں کی خبر گیری سے لے کر امن کو فروغ دینے تک کیا ہے جو شامل نہیں ۔یہ تنظیم چاہتی ہے کہ ایک عام انسان مذہب ، زبان،فرقے اور ملکی حدود سے آگے تک دیکھے اور یہ کہ ادب اور دانش ورانہ سرگرمیوں کے ذریعے دنیا کے لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لایا جائے۔ تنظیم کا نعرہ ہے کہ دنیا میں زبان اور ادب کے فروغ کی خاطر کام کرنے والا کوئی بھی فرد یا ادارہ یورپین لٹریری سرکل کا رکن بن سکتا ہے۔ اتنی وسیع نظر رکھنے والی تنظیم نے اس بار اٹلی میں جو محفل سجائی اس میں شرکت کے لئے خود یورپ کے قریب اور دور کے ملکوں کے ادیب اور شاعر شریک ہوئے اور مشاعروں کو تو جانے دیجئے، وہ تو ملاقات کا ایک حیلہ تھا، اس بہانے جو ملاقاتیں اور تعارف ہوئے، جو انسانی رشتے قائم ہوئے ، نئی نئی دوستیاں نظر آئیں، فاصلے مٹے، قربتیں بڑھیں، یہی میرے نزدیک اس طرح کے اجتماع کا پہلا اور بڑا فائدہ ہوتا ہے۔ مجھے یا د ہے چند برس پہلے ترکی کے شہر استنبول میں اردو کے نام پر ایک بڑا اجلا س ہوا تھا جس میں دنیا بھر کے مندوبین شریک تھے۔ اجلاس کے خاتمے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے میں نے کہا تھا کہ کانفرنس ختم ہوتی ہے، محبتیں شروع ہوتی ہیں۔یہی اس بار اٹلی میں میلان کے شہر میں ہوا جسے میں نے ’ملن کا شہر‘ قرار دیا۔ اچھا ہے، اس طرح کا شغل رہنا چاہئے۔ پڑھے لکھے لوگ مل بیٹھیں، کچھ علم و دانش کی باتیں کریں، خیالات کا تبادلہ ہو۔ اپنی ادبی کاوشوں کے تحفے ایک دوسرے کو دئیے جائیں، کچھ منصوبے زیر غور آئیں، کچھ ارادوں کو تقویت ملے، اک ذرا سی رہنمائی ہو، اپنی اپنی مہارتوں میں دوسروں کو حصہ دار بنا یا جائے، کچھ سیکھنے کا عمل ہوا ور کچھ سکھانے کا۔وہ دانشور ہی کیا جو اپنی دانش میں دوسروں کو شریک نہ کرے۔
میلان کی ان مجلسوں میں ایک تقریب سب سے ہٹ کر تھی ۔ ایک شام ایک او رطعام خانے میں لوگ گول میز کے گرد بیٹھے اور وہ معاملہ موضوع بحث بنا جس ’ گلوبلائزیشن‘ کہا جاتا ہے جس میں دنیا کا خانوں میں بٹوارہ نہ ہو۔ ہر ایک کا درد سب ہی کا درد ہو، سب کا ایک دوسرے پر انحصار ہو۔ یہ تصور بقائے باہمی کے نظریہ سے لگّا کھاتا ہے۔ دیکھنے میں نہیں لیکن گہرائی میں جائیں تو اس مباحثے کے کچھ دردناک پہلو بھی ہیں ۔ ہماری اس زمین کو ایک بڑی منڈی بھی سمجھا جاسکتا ہے جس میں ہر ایک کو گاہکوں کی ضرورت ہوتی ہے اور گاہک کی تلاش میں بھانت بھانت کے حربے اختیار کئے جاتے ہیں اور چالیں چلی جاتی ہیں جسے آج ہم ہر پتھر کے نیچے دبی ہوئی سازش بھی کہتے ہیں۔ اس تجارتی بالا دستی کے موضوع کے ساتھ بحث یہ ہونی تھی کہ کاروباری بالادستی کی زد میں زبان اور ادب کچلے تو نہیں جارہے ۔مگر ہوا یہ کہ تمہید طول کھینچ گئی اور ہم جو کچھ طے کرکے گئے تھے اس کی نوبت ہی نہ آئی۔لبتہ اس سے یہ اطمینان ضرور ہوا کہ اس طرح کے مباحثے ہو سکتے ہیں اور فہم ودانش کے موضوعات پر اک ذرا طویل گفتگوممکن ہے۔بحیرۂ روم کا یہ خطّہ تو اپنے بلا کے ذہین اور ہنرمندلوگوں کے نام پر جی رہا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ جیتا رہے۔ اس کی باتیں جاری رہیں گی۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ