کبھی ہم دھند میں بھی دور تک منظر میں ہوتے تھے
جب آنکھیں ساتھ دیتی تھیں تو ہر پیکر میں ہوتے تھے
کسی دریا، کسی صحرا، کسی خوشبو، کسی آنسو کو ہم آنکھوں میں رکھتے تھے
اور اُس کو دیکھ لیتے تھے
کبھی ہم ایک جگنو کو تصور میں سجاتے تھے
اور اُس کی روشنی میں دور تک بڑھتے ہی جاتے تھے
کہ آنکھیں ساتھ دیتی تھیں
بہت سے منظروں میں یہ ہمارا ساتھ دیتی تھیں
بہت سے راستوں میں یہ ہمارے ساتھ ہوتی تھیں
جب آنکھیں ساتھ دیتی تھیں
تو ہم منظر کے ساتھ آواز کو بھی دیکھ لیتے تھے
کسی دم ساز کے اُس دل نشیں انداز کو بھی دیکھ لیتے تھے
کہ جس میں جاودانی تھی
کوئی دریا تھا اور اُس کی روانی تھی
محبت کی نشانی تھی
ہمارے پاس کچھ سامان تھا جس میں
بہت سے بے سروسامان لمحوں کی بہت سی رائیگانی تھی
مگر ہم مطمئن تھے بس کہ آنکھیں ساتھ دیتی تھیں
۔۔۔۔
جب آنکھیں ساتھ دیتی تھیں تو ہم باتیں بھی کرتے تھے
کسی سے ہجر لمحوں میں ملاقاتیں بھی کرتے تھے
مناجاتیں بھی کرتے تھے
کتابوں میں اگر اک لفظ مدھم بھی کہیں ہوتا
تو وہ روشن ہی ہوتا تھا
اگرچہ اُس گھڑی بھی اپنی آنکھوں میں فقط ساون ہی ہوتا تھا
مگر اتنا تو تھا چاروں طرف جیون ہی ہوتا تھا
سو ہم لفظوں کو تکتے تھے
کتابوں میں چھپے چہروں کو تکتے تھے
کبھی ہم رقص کرتے تھے ،کبھی ہم گیت گاتے تھے
کبھی رومال کے کونے میں اک وعدہ کسی کا باندھ لاتے تھے
کبھی ہم مسکراتے تھے ، کبھی ہم سانس لیتے تھے
۔۔۔۔
جب آنکھیں ساتھ دیتی تھیں تو چہرے ساتھ دیتے تھے
وہ آوازیں اور آوازوں کے لہجے ساتھ دیتے تھے
کبھی نظریں ملاتے تھے تو نظریں ساتھ دیتی تھیں
اور اُس سے بات کرتے تھے تو سانسیں ساتھ دیتی تھیں
جو دل میں چور ہوتا تھا کبھی وہ مور بن کر رقص میں آتا
تو جیسے سب زمین و آسماں بھی وجد میں ہوتے
۔۔۔۔
عجب یہ چور لمحہ ہے
نہ آنکھیں ساتھ دیتی ہیں ،نہ لہجے ساتھ دیتے ہیں
نہ منظر وجد میں ہیں اور نہ رستے ساتھ دیتے ہیں
نہ ساون ہے، نہ جیون ہے ، نہ وہ جگنو ہی روشن ہے
مگر اس دھند میں پھولوں بھرا رستہ تو باقی ہے
رضی میں شکر کرتا ہوں کہ آنکھوں میں وہ اک چہرہ تو باقی ہے
اُس اک چہرے کو تکتا ہوں تو آنکھیں ساتھ دیتی ہیں
اور اُس سے بات کرتا ہوں تو سانسیں ساتھ دیتی ہیں
فیس بک کمینٹ