ڈاکٹر خیال امروہوی کے بارے میں تشویش ناک خبریں کافی عرصے سے موصول ہو رہی تھیں۔ ٹانگ میں فریکچر کے باعث چند برسوں سے ان کی سرگرمیاں محدود ہو گئی تھیں۔اس سے پہلے تو وہ علالت اور ضعیفی کے باوجودملتان بھی تشریف لاتے تھے ،کبھی کسی مشاعرے ،کبھی ریڈیو کے کسی پروگرام یا کبھی خانہء فرہنگِ ایران کی کسی تقریب میں شرکت کے لئے۔ملتان آتے تو پھر شاعروں کے ٹھکانوں تک بھی ضرور پہنچتے۔بابا ہوٹل جب تک آباد رہا، خیال صاحب ملتان آمد پر کچھ دیر کے لئے وہاں لازماً آتے، دوستوں کی خیریت معلوم کرتے اور پھر لاہور یا واپس لیہ کی جانب روانہ ہو جاتے۔ایک چکران کا اخبارات کے دفاتر میں بھی لگتا تھا ۔ان کے تھیلے میں بہت سے مسودے ہوتے تھے ۔مضامین،غزلیں اور سیاسی کالم ۔سبھی کچھ ان کی زنبیل میں موجود ہوتا تھا ۔وہ زنبیل نماتھیلا میز پر رکھتے اور ہمیں دعوت دیتے کہ ہم اخبار میں چھاپنے کے لئے اس میں سے اپنی مرضی کی تحریریں نکال لیں ۔ہم بھی جانتے تھے کہ ڈاکٹر صاحب نے جو کچھ تحریر کیا ہے وہ ہم من وعن شائع نہیں کر سکیں گے اور ڈاکٹر صاحب بھی ہماری مجبوریوں کو سمجھتے تھے۔لیکن اس کے باوجود وہ وہی لکھتے تھے جو ان کے دل میں ہوتا تھا ۔’’ بھئی پالیسی والیسی کو ہم کچھ نہیں سمجھتے۔ آپ اسے جتنا چھاپ سکتے ہیں چھاپ دیں‘‘ یہ ان کا دو ٹوک قسم کا جواب ہوتا تھا جو ہم برس ہا برس سے سن رہے تھے ۔آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کیا خیال صاحب ملکی سالمیت کے خلاف کچھ لکھتے تھے جسے ہمارے لئے چھاپنا ممکن نہ ہوتا تھا ؟کیا وہ ملک دشمن تھے کہ ان کی تحریریں اخبارات میں جوں کی توں نہیں چھاپی جا سکتی تھیں؟اور کیا وہ مذہبی ،نسلی یا لسانی تعصبات کو ہوا دیتے تھے، جو ان کی تحریریں چھاپنا اخبارات کے لئے مشکل ہوتا تھا ۔نہیں صاحب ایسی تو کوئی بات ہی نہیں تھی۔مارکسی فلسفہ اورعظمتِ انسان خیال صاحب کے بنیادی موضوعات اور ملائیت و ملوکیت کے خلاف شدید احتجاج ان کا نصب العین تھا ۔ اور یہ وہ موضوعات ہیں جن کے حوالے سے کسی بھی تحریر کو فی زمانہ اس کی اصل روح کے مطابق شائع کرنا ممکن ہی نہیں رہا ۔ہم خیال صاحب سے دست بستہ گزارش بھی کرتے کہ حضور آپ خود ہی ’’قابلِ اشاعت‘‘جملے تحریر کر دیا کریں اورہم جیسے طفلانِ مکتب کو اس آزمائش میں نہ ڈالا کریں کہ ہم آپ کی تحریر کو ایڈٹ کرتے پھریں ۔’’تو کیا ہم لکھنے سے پہلے آپ کے ذہنی و صحافتی معیار کو مدِنظر رکھا کریں ؟‘‘ظاہر ہے کہ خیال امروہوی صاحب کے اس سوال کا ہمارے پاس کبھی بھی جواب نہ ہوتا تھا ۔خیال صاحب کا اگلا سوال یہ ہوتا تھا کہ اخبار مجھے میرے کالم یا مضمون کا کیا معاوضہ دے گا۔ اس سوال کا ہم انہیں کبھی بھی تسلی بخش جواب نہ دے پائے کہ فی زمانہ زیادہ تر اخبارات لکھاریوں سے فی سبیل اللہ ہی لکھوانا پسند کرتے ہیں۔خیال صاحب کو بھی معلوم ہوتا تھا کہ انہیں ان کے مضمون یا کالم کا کوئی معاوضہ نہیں ملے گاوہ بغیر معاوضے کے ہمیں اپنی تحریریں دے بھی جاتے تھے لیکن اس کے باوجود ہر مرتبہ اس حوالے سے استفسار ضرور کرتے تھے محض اور صرف ہمیں شرمندہ کرنے کے لئے اور ہم تھے کہ کبھی شرمندہ ہوتے ہی نہیں تھے کہ فی زمانہ شرمندہ نہ ہونا بھی صحافتی آداب و اخلاقیات کا حصہ بن چکا ہے۔ان کا دوسرا مطالبہ یہ ہوتا تھا کہ انہیں کم از کم اعزازی اخبار ضرور ارسال کیا جائے ۔ظاہر ہے یہ مطالبہ پورا کرنا بھی ہمارے اختیار میں نہ ہوتا تھا ۔انہیں بھی معلوم ہوتا تھا کہ ہم انہیں اخبار ارسال نہ کر سکیں گے مگر اس کے باوجود وہ یہ تقاضا بھی ہر مرتبہ باقاعدگی سے کرتے تھے اور مطالبہ پورا نہ ہونے کے باوجود قلمی تعاون بھی جاری رکھتے تھے۔خیال صاحب اپنی ان تمام تر خوبصورتیوں کے ساتھ 14مئی 2009 ء تک ہمارے درمیان موجود رہے۔اس روز ایک خوبصورت شاعر، نقاد، مترجم، محقق اور ماہرِتعلیم ہمیشہ کے لئے ہم سے جدا ہو گیا ۔حیدر آباد دکن کے علاقے بیڑ میں پیدا ہونے والے خیال امروہوی کو لیہ کے ایک قبرستان میں سپردِخاک کر دیا گیا۔ ان کا اصل نام سید علی مہدی نقوی تھا۔ 10دسمبر1930ء کو پیدا ہوئے۔بچپن نوابی شان و شوکت میں گزرا۔والد نے اپنے اکلوتے بیٹے کی بہت لاڈ سے پرورش کی۔گھر میں بڑی آسودگی تھی، نوکر چاکر آگے پیچھے پھرتے تھے۔علوم السنہ شرقیہ کا امتحان پاس کرنے کے بعد آپ نے انگریزی کا امتحان دے کر 1943میں میٹرک کر لیا۔ اسی دوران شاعری بھی شروع ہو چکی تھی۔ 1944ء میں حیدر آباد دکن سے اردو فاضل کے امتحان میں اول پوزیشن حاصل کی۔ 1945ء میں ایف اے، 1947ء میں بی اے ،اور 1949ء میں فارسی میں ایم اے کیا۔قیامِ پاکستان کے بعد خیال صاحب والدین کے ہمراہ بہت سے خواب آنکھوں میں سجائے پاکستان چلے آئے ۔پہلے کراچی ،پھر حیدر آباد میں قیام کیا اور پھر کچھ عرصہ بعد لاہور منتقل ہو گئے۔ نوابی شان و شوکت کے ساتھ بچپن گزارنے والے خیال امروہوی کے لئے پاکستان آمد کے بعد مسائل کا آغاز ہوا۔اور ایسا آغاز کہ جس کا کوئی انجام ہی نہیں تھا۔والد اور والدہ انتہائی تنگ دستی اور غربت کے عالم میں دنیا سے کوچ کر گئے ۔ خیال امروہوی کو اب تنِ تنہا حالات کا مقابلہ کرنا تھا۔ 1964ء تک کا دور انتہائی کٹھن تھا ۔خیال صاحب نے کئی سرکاری و غیر سرکاری ملازمتیں کیں ۔اسی دوران ترقی پسند تحریک سے منسلک ہوئے ،مارکسی فکر سے آگاہی حاصل کی اور ترقی پسند سوچ کو اس خلوص کے ساتھ اپنایا کہ مرتے دم تک اس کی عملی تصویر بنے رہے۔1964ء میں خیال امروہوی شعبہ تعلیم سے منسلک ہو گئے۔ فارسی کے استاد کی حیثیت سے شکرگڑھ اور ملتان میں کچھ عرصہ گزارنے کے بعد مستقل طور پر صحرائے تھل کو اپنا مسکن بنا لیا۔ 1969ء میں سرکاری خرچ پر اعلیٰ تعلیم کے لئے ایران گئے اور ایران کی انقلابی شخصیت مزدک پر مقالہ تحریر کر کے تہران یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔ ڈاکٹر خیال امروہوی نے 40برس سرزمینِ لیہ پر قیام کیا اور ایک ایسے خطے میں اردو شاعری کے پھول کھلائے جو ثقافتی طور پر سرائیکی شعر و ادب کا مرکز سمجھا جاتا تھا ۔لیہ میں خیال صاحب سے پہلے نسیم لیہ شعرو ادب کی محفلوں کو آباد کئے ہوئے تھے ۔ خیال صاحب کے آنے کے بعد یہاں کی ادبی سرگر میوں میں تیزی آ گئی ۔ شاعرانہ چشمک، مسابقت کا جذبہ،شاگردوں کے ساتھ مشاعروں میں شرکت۔ یہ سب کچھ سر زمینِ لیہ کی ادبی نشو و نما کے لئے بہت سود مند ثابت ہوا۔ایک سلسلہء خیالیہ وجود میں آیا۔لیہ کے گرد و نواح میں شاعروں کی ایک پوری کھیپ تھی جس کا شمار متاثرینِ خیال امروہوی میں ہوتا تھا۔ڈاکٹر خیال امروہوی ایک ہمہ جہت انسان تھے ۔مختلف موضوعات پر ان کی 25سے زیادہ کتب شائع ہوئیں جن میں شاعری کے چار مجموعے شامل ہیں ۔ مقتلِ جاں، گنبدِ بے در، لمحوں کی آنچ اور تلخاب ان کے شعری مجموعوں کے نام ہیں ۔دیگر اہم کتابوں میں ایران کا عظیم انقلابی مزدک (تحقیقی مقالہ)،سبز کتاب (معمر قذافی کی کتاب کا ترجمہ)، نئی سوچ (مضامین)، شعلہء تحریر(کالم)،لغاتِ فلسفہ (ڈکشنری آف فلاسفی کا ترجمہ)شامل ہیں ۔ خیال صاحب نے وفات سے دو تین برس قبل تک بھر پور اور انتہائی فعال زندگی گزاری ۔پھر ایک حادثے میں ان کی ٹانگ میں فریکچر آ گیا۔اب ان کی سرگرمیاں اپنے شہر تک ہی محدود ہو کر رہ گئیں۔ہم کسی مشاعرے میں شرکت کے لئے لیہ جاتے تو خیال صاحب سے ملاقات ہو جاتی۔ انھیں سہارا دے کر سٹیج پر لایا جاتا، تقریبات میں زیادہ دیر بیٹھنا بھی اب ان کے لئے ممکن نہ رہا تھامگر وہ پھر بھی باقاعدگی کے ساتھ شہر کی تقریبات میں شریک ہوتے رہے ۔تمام تر ضعیفی کے باوجود جب وہ کسی سہارے کی مدد سے مائیک تک پہنچ جاتے تو سامعین کو دیکھ کر ان کی تمام توانائیاں لوٹ آتی تھیں۔کہاں کی ضعیفی اور کہاں کی معذوری ۔بس پھر خیال صاحب ہوتے تھے اور حاضرینِ مشاعرہ۔ایک کے بعد دوسرا قطعہ ،ایک کے بعد دوسری غزل۔کبھی مولوی سے چھیڑ چھاڑ،کبھی سیاست دانوں سے اٹکھیلیاں،کہیں محبوب کا ذکر تو کہیں عصرِ حاضر کے مسائل۔ایک خاص اندازتھا ان کا ۔ایسا اندازجو صرف انہی کی پہچان تھا۔
دیوارکی ہر اینٹ پر لکھا ہے میرا نام
تعمیر مگر آپ سے منسوب ہوئی ہے
یا یہ شعر دیکھئے
ابلیس کی شہ پر نہ کسی شر سے لگی ہے
جو آگ لگی ہے وہ میرے گھر سے لگی ہے ۔۔۔۔
مخلوق نے تو اپنے غموں کی دہائی دی
لیکن امیر ِ شہر کو سازش دکھائی دی
ایسے خوبصورت اشعار کہنے والے ڈاکٹر خیال امروہوی نے زندگی کے آخری ایام انتہائی تنگدستی میں بسر کئے۔زندگی کی بدصورتیوں کو خوبصورتیوں میں تبدیل کرنے کے خواب دیکھنے والایہ شاعر14مئی 2009ء کی صبح ہمیشہ کے لئے ہم سے جدا ہو گیا۔اس کے سبھی خواب ادھورے رہ گئے۔
فیس بک کمینٹ