ادبی حلقوں میں آج کل عاصی کرنالی کے نئے شعری مجموعے”چمن“ کے خاصے تذکرے ہیں۔ایک محفل میں مجموعے کانام زیربحث تھا۔عاصی صاحب کے ایک قریبی دوست نے نام کی توجیح یہ پیش کی کہ عاصی کرنالی کو چمن والے انگور بہت پسندہیں وہ جہاں بھی یہ انگور بکتے دیکھتے ہیں اپنے 65 ماڈل کے سکوٹر کو اس زور سے بریک لگاتے ہیں کہ درختوں پربیٹھے پرندے بھی سہم جاتے ہیں۔انگوروں سے ان کی دلچسپی ہی کانتیجہ ہے کہ ان کے موجودہ شعری مجموعہ کا نام ”چمن“ ہے۔ہم نے چمن کاسرسری مطالعہ کیا ہے اورہم عاصی صاحب کے نئے مجموعے پر تبصرہ صرف اس شعر کی صورت میں کریں گے
یہ چمن یونہی رہے گااورہزاروں جانور
اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اڑجائیں گے
ویسے تو ہم عاصی کرنالی کی بہت عزت کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ہمیں عرش صدیقی کی اس رائے سے بھی مکمل اتفاق ہے کہ ”عاصی کرنالی ہزاروں مرتبہ استعمال کی جانے والی تراکیب اور مضامین کو باربار اپنے شعروں میں استعمال کرتے ہیں اور اس طرح استعمال کرتے ہیں کہ وہ ہر بار نئے محسوس ہوتے ہیں اور یہی ان کی خوبی ہے“۔اقبال ارشد عاصی کرنالی کے بہت مداح اورخدمت گز ارہیں ۔گزشتہ ماہ جب بہاﺅالدین زکریا کے عرس کے موقع پر کل پاکستان نعتیہ محفل مشاعرہ منعقد ہوا تومنتظمین نے اقبال ارشد کو نوجوانوں کی صف میں لاکھڑا کیا ۔ویسے تو اقبال ارشد کو اب بھی اپنی جوانی پرناز ہے اوروہ خود کو جوان کہلانا ہی پسند کرتے ہیں لیکن مشاعرے میں ان کے ساتھ یہ سوکیانہ سلوک ہوا تو وہ سراپا احتجاج ہو گئے ۔مشاعرے کااہتمام ریڈیووالوں نے کیاتھا اورریڈیو کے ساتھ عاصی کرنالی کا بہت پرانا تعلق ہے۔سو اقبال ارشد اس بات پر مصر ہیں کہ ان کے ساتھ یہ برتاﺅ عاصی کرنالی کے کہنے پرکیاگیا۔خدا معلوم یہ بات کس حد تک درست ہے۔ویسے عاصی صاحب کی ریڈیو دوستی کے تو ہم بھی قائل ہیں۔ریڈیو کے سرکردہ پروڈیوسروں اور افسروں کے بچوں کو عاصی صاحب مفت ٹیوشن پڑھاتے ہیں ۔ان کی اہلیہ محترمہ ثمربانوہاشمی کا ایک ناول ”دل کی وہی تنہائی“شائع ہوا تو لوگوں نے عاصی کرنالی کو معنی خیز نظروں سے دیکھنا شروع کردیاکہ عاصی صاحب تو اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں پھربھلا ان کی اہلیہ دل کی تنہائی کا شکوہ کیوں کررہی ہیں۔”حریم فن“ سے تعلق رکھنے والی ثمربانوہاشمی کی ایک دوست بتارہی تھیں کہ محترمہ ثمربانوہاشمی کو منیرنیازی کایہ مصرعہ بہت پسند ہے
” میری ساری زندگی کو بے ثمراس نے کیا “ ۔ لیکن اس پسندیدگی کی کوئی خاص وجہ ہر گز نہیں انہیں تو منیر نیازی کےدیگر اشعار بھی پسند ہیں ۔
پندرہ روزہ دید شنید لاہور۔یکم نومبر1986ء