جب فیصلہ ایک ہی چل رہاہے اور 70برس سے صرف جج ہی تبدیل ہورہے ہیں توکسی بھی فیصلے پر نہ حیران ہونے کی ضرورت ہے اور نہ ملال کی کوئی گنجائش ہے۔آپ جو سمجھ رہے ہیں ہم وہ بات ہی نہیں کررہے اور ہم جو بات کررہے ہیں وہ تو آپ سمجھ ہی نہیں رہے۔اور آپ کو سمجھنا بھی نہیں چاہیے۔باتیں سمجھ آناشروع ہوجائیں تو زندگی اجیرن ہوجاتی ہےاور یہ مزید اجیرن نہیں ہونی چاہیئے۔ یہ فیصلے تو اب ہماری زندگی کاحصہ بن چکے ہیں۔اصل میں تو ہم اب تک یہ فیصلہ ہی نہیں کرپائے کہ کون سا فیصلہ” فیصلہ“ ہوتا ہے یا کون سا فیصلہ ”فیصلے“ کی تعریف پر پورا اترتا ہے۔ بس ہم تو یہ کہتے ہیں کہ تعریف اس خدا کی جس نے یہ جج بنایا۔اور اس لیے بنایا کہ وہ سول حکمرانوں اورسیاست دانوں کو ان کی اوقات بتاتا رہے۔ وہ بتاتا رہے کہ کوئی وزیراعظم کتنا ہی طاقت ور کیوں نہ ہو عدالت کے سامنے اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔خواہ وہ بھٹو ہو،جونیجو ہو ،یوسف رضاگیلانی ہویانوازشریف۔کسی بھی وزیراعظم کو اس کے عہدے سے بیک جنبش قلم ہٹایا جاسکتا ہے، اسے رسوا کیا جاسکتا ہے ۔اسے سزا دی جاسکتی ہے اورپھر وہ تاریخی قلم کسی فٹ کانسٹیبل کوتحفے میں دیا جاسکتا ہے۔ وزیر اعظم سے عدالتوں کے چکر لگوائے جاسکتے ہیں۔اس کا تمسخر اڑایا جاسکتا ہے۔اس کی حالت پر نجی محفلوں میں قہقہے لگائے جاسکتے ہیں اور منتخب وزیراعظم اگر عدالت میں یہ شعر سنائے کہ” درداں دی ماری جندڑی علیل اے “ تو اس کی تضحیک کی جاسکتی ہے۔اسے یہ بتایا جاسکتا ہے کہ انصاف کے پلڑے میں سب برابر ہیں ۔ قانون کی ناک کہیں سے بھی مروڑی جاسکتی ہے۔ قانون کی ناک کھینچی جاسکتی ہے۔ قانون کی ناک چپٹی کی جاسکتی ہے۔قانون کی ناک گول کی جاسکتی ہے۔حتیٰ کہ قانون کی ناک ایسی بھی کی جاسکتی ہے کہ اس کے نتیجے میں قانون پر عمل درآمد کرنے یا کرانے والے خود ہی مسخرے دکھائی دینے لگیں۔کوئی ایک بار وزیراعظم منتخب ہواہو یا دوتین مرتبہ ۔اسے اس کے منصب سے ہٹانا بہت آسان کام ہے۔ اس پر قتل کا الزام بھی عائد کیا جاسکتا ہے۔اسے غدار بھی کہا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے وعدہ معاف گواہ بھی بنائے جاسکتے ہیں۔ اس کے لیے ایف ایس ایف کا کوئی مسعود محمود بھی رضا کارانہ طورپر اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہہ سکتا ہے۔ اور پھر کسی بھی وزیراعظم کو چند سیکنڈ کی سزا دے کر توہین عدالت کے الزام میں اس کے عہدے سے فارغ کیا جاسکتا ہے۔ جج کوئی بھی ہو وہ جسٹس منیر ہوتا ہے ،جسٹس مشتاق ہوتا ہے ، وہ جسٹس انوارہوتا ہے۔ اور وہ کہیں کہیں بشیر بھی ہوتا ہے۔اور بشیر کا کہیں ضمیربھی ہوتا ہے۔ جو اسے بتاتا ہے کہ تم نے کسی کی دھمکیوں میں نہیں آنا ۔تم نے دھونس اوردھاندلی کے ذریعے 30سال تک حکمرانی کرنے والوں کو ان کی اوقات میں رکھنا ہے۔ اورانہیں بتانا ہے کہ قانون طاقت ور ہوتا ہے۔اگر ان کے خلاف کوئی ثبوت نہ ملے اور چور ثبوت چھوڑتے بھی نہیں توپریشان مت ہونا ۔اگرگواہوں اور ثبوت کے بغیر منتخب وزیراعظم کو سزائے موت دی جاسکتی ہے تو کرپشن کون سا بڑا جرم ہے۔کرپشن تو ہمارے اپنے اداروں میں بھی رائج ہے۔ہمارے جج بھی تو کرپٹ ہیں ۔لیکن ہم نے خوف زدہ نہیں ہونا۔بس اپنے کام سے کام رکھنا ہے۔ کوئی ضرورت نہیں کسی بھی فیصلے پر شور مچانے والوں کے دباﺅ میں آنے کی ۔بس لوگوں کو یہ بتانا ہے کہ کوئی کام بھی اللہ کی مرضی کے بغیر نہیں ہوتا ۔اور ہمیں بحیثیت مسلمان یہ یادر کھنا چاہیے کہ جج جو بھی فیصلہ لکھ رہا ہے اللہ کے حکم پر لکھ رہا ہے۔اللہ بہت طاقت ور ہے وہ اگر چاہے تو جج کے دل میں رحم بھی ڈال سکتا ہےاور اگر اللہ جج کے دل میں رحم نہیں ڈالتا تو اس میں جج کا بھلا کیا قصور ؟ ۔ جو قادر مطلق ہے وہی تو فیصلوں پر قادر ہے۔ لوگوں کوبتاﺅ کہ تم بلاوجہ فوج پر الزام لگاتے ہو ،مقتدر قوتوں پر الزام لگاتے ہو،اشاروں کنایوں میں جرنیلوں پر طنز کرتے ہو۔اورکہتے ہو کہ خدا کسی کو عزت دینا چاہے تو اسے ملزم بنا دیتا ہے۔ یہ تمہاری غلط فہمی ہے ۔تم کہتے ہو کہ کئی فیصلے ہیں جو تاریخ کے کوڑا دان میں پڑے ہیں ۔ کتنے ہی فیصلے ہیں جو طاقت ور لوگوں کی مرضی سے ہوئے ۔لیکن تاریخ نے ہر مرتبہ ان فیصلوں کو رد کردیا۔ تم غلط کہتے ہو کہ وقت کا ایک اپنا فیصلہ ہوتا ہے اور تاریخ اپنے فیصلے خود کرتی ہے۔ اور ضروری نہیں کہ تاریخ کافیصلہ تمہیں آج سمجھ آجائے۔ 1979ءمیں جب ذوالفقارعلی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکایا گیا تھا اور اس سے پہلے جب ہائی کورٹ اورسپریم کورٹ نے انہیں سزائیں دی تھیں ۔ان کی اپیلیں مسترد کی تھیں اور ڈکٹیٹر نے عالمی برادری کے اصرار کے باوجود ذوالفقارعلی بھٹو کو معاف کرنے سے انکار کردیاتھا تو اس زمانے میں بھی روزانہ مٹھائی تقسیم ہوتی تھی۔ جیسے آج ہم بہت سے لوگوں کو مٹھائی کھاتے اورمٹھائی بانٹتے اور رقص کرتے دیکھ رہے ہیں۔بالکل اسی طرح اس روز جب جرنیل نے بھٹو صاحب کوتختہ دار پر لٹکایا تھا اور انہیں قاتل قراردیاتھا۔تو اس روز بھی جماعت اسلامی ،نو ستاروں اور ان کے پیاروں نے مٹھائیاں تقسیم کی تھیں۔ حلوو ں کی دیگیں بانٹی گئی تھیں۔ اور یہ کہا گیاتھا کہ آج اسلام کا بول بالا ہوگیا ہے۔ اور غدار بھٹو اپنے انجام کوپہنچ گیا ہے۔ لیکن اس روز مٹھائیاں تقسیم کرنے والوں کو معلوم نہیں تھا کہ کئی برس بعد جب بھٹو کا مزار انقلابیوں اور مزاحمت کرنے والوں کی عقیدت کامرکز بن چکا ہوگا تو لاہور کی ایک سڑک پر لوگ ایک جنازہ پھینک کر بھاگ جائیں گے اور جنازے کے بہت سے شرکاءزخمی ہوجائیں گےان کے منہہ سوج جائیں گے اور وہ جنازہ بہت دیر تک لاہور کی سڑک پر پڑا رہے گا ۔اورپھرجب شہد کی مکھیاں واپس چلی جائیں گی تو چند لوگ واپس آکر اس جنازے کو قبرستان لے جائیں گے اور میت ٹھکانے لگادیں گے۔ اگلے روز اخبارات کی زبانی دنیا کوپتہ چلے گا کہ لاہور میں شہد کی مکھیوں نے جس جنازے پر حملہ کیا وہ بھٹو صاحب کو سزائے موت دینے والے اور عدالت میں ان کا تمسخر اڑانے والے جسٹس مولوی مشتاق حسین کا جنازہ تھا ، تو پھر لوگوں کے ذہن میں کئی سوالات ابھریں گے اور پھرمنو بھائی ایک کالم لکھیں گے جس میں وہ بتائیں گے کہ شہد کی مکھیوں کو وحی آتی ہے۔اور سنو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں سزا کاٹنے کے لیے ،جیل جانے کے لیے منتخب لوگ ہی کام آتے ہیں۔اور یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے آئین نہیں توڑا ہوتا۔جنہوں نے ملک سے غداری نہیں کی ہوتی۔ اور جنہوں نے ملکی سلامتی کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا ہوتا۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے یا تو ملکی دفاع مضبوط بنانے کے لیے ایٹمی پروگرام شرع کیا ہوتا ہے یا پھر اسے منطقی انجام تک پہنچایا ہوتا ہے۔ایسے غداروں کو تو سلاخوں کے پیچھے ہی ہونا چاہیے۔
فیس بک کمینٹ