مزارات یا مقبرے ؟
1990ءکے عام انتخابات میں ایک مذہبی جماعت کے ٹکٹ پرملتان سے رکن قومی اسمبلی بننے والے ایک صاحبزادہ سے مکالمہ کرتے ہوئے ملتان کے ثقافتی شہزادے حسن رضا گردیزی نے کہا تھا کہ” صاحبزادہ صاحب آپ نے ہماری ذات پر بڑا احسان کیا ۔آپ کے والد بزرگوار نے وصال فرمایا تو آپ نے ان کا بڑا سا مقبرہ تعمیر کرا دیا۔ہم پر احسان یہ ہوا کہ ہمارے دل سے حضر ت یوسف شاہ گردیز اور دیگر ہستیوں کا خوف بھی جاتا رہا“۔مزارات کے نام پر ایسے بہت سے مقابر گزشتہ چند عشروں کے دوران ہم نے بھی تعمیر ہوتے دیکھے ۔یہاں مزارات کی جگہ مقبروں کا لفظ اس لئے استعمال کیا کہ مزارات تو درویشوں کے ہوتے ہیں مذہب اور تصوف کے نام پر خوف کی بنیاد پر لوگوں کو غلام یا مرید بنانے والے مزارات میں آسودہ ء خاک نہیں مقبروں میں دفن ہوتے ہیں ۔
چوکھٹوں پر سجدہ ریز خلقِ خدا
دلوں سے ان ہستیوں کاخوف ختم ہوا یا نہیں لیکن کچھ سوال ذہنوں میں ضرور ابھرے اور یہ ایسے سوالات ہیں کہ جنہیں خلقِ خدا کے خوف سے زبان پر لانا بھی ممکن نہیں ۔یقیناً آنے والے برسوں اور صدیوں میں ان مقابر اور ان شخصیات کے حوالے سے بہت سے معجزے رقم ہوں گے،بہت سی روایات اور بہت سی ماورائی کہانیاں مشہور ہوں گی۔لیکن ہم جنہوں نے ان شخصیات کو دیکھا اور ان کے اعمال و افعال سے بخوبی واقف ہیں ہمیں تو معلوم ہے کہ ان کے تقدس میں کتنی سچائی ہے ، لیکن آنے والی نسلیں تو انہیں برگزیدہ ہی سمجھیں گی۔توہمات مزید مستحکم ہوں گے۔ضعیف الاعتقادی میں مزید اضافہ ہو گا ۔دکھوں کی ماری خلقِ خدا اپنے مسائل کے حل کے لئے ان کی چوکھٹوں پر سجدہ ریز ہی رہے گی اور اس کے نتیجے میں جہالت ،غربت،پسماندگی اور مفلوک الحالی میں اور اضافہ ہو گا۔ تاریخ کا جبر یہ بھی ہے کہ ایسے بہت سے مقامات پر و ہ خاموش رہی ہے ۔
حملہ آوروں کی یادگاریں کیوں ؟
المیہ یہ ہے تاریخ کے صفحات میں ہمیں کئی مقامات پر تضادات دکھائی دیتے ہیں ۔مزاحمت کرنے والوں کو باغی اور حملہ آوروں کو ہیرو بنا کر پیش کیا گیا۔ملتان میں آج بھی حملہ آوروں کی یادگاریں موجود ہیں ۔لوٹ مار کے لئے اپنے اپنے علاقوں سے ملتان کی جانب آنے والوں نے یہاں طویل حکمرانی کی ۔وہ محمد بن قاسم ہو ،احمد شاہ ابدالی ہو، رنجیت سنگھ ہویا کوئی اور حملہ آور ۔ان میں سے کوئی اسلام کے نام پر آیا اور کوئی کسی اور بہانے ،مقصد سب کا ایک ہی تھا ۔انہوں نے عوام کو لوٹا ،ان کا قتلِ عام کیا ،عزتوں سے کھیلا اور تاریخ میں اپنا نام لکھوا کر چلے گئے ۔
دروازوں کی چوکھٹوں پر کپڑا ڈالنے کا پس منظر
ملتان کی تاریخ پر کام کرنے والے زکریا یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر عاشق محمد خاں درانی ایک تقریب میں بتا رہے تھے کہ یہ جو اندرون ملتان کے بہت سے گھروں کے آج بھی دروازے نہیںصرف چوکھٹیں ہیںاور ان چوکھٹوں پرکپڑے کا پردہ ڈالا جاتا ہے یہ روایت انہی حملہ آوروں کے احکامات پر عمل در آمد کے نتیجے میں مستحکم ہوئی اور پھر اتنی مستحکم ہوئی کہ یہاں کے طرزِ تعمیر کا حصہ بن گئی ۔ہر حملہ آور اپنی تہذیب،ثقافت،زبان اور مذہب اپنے ساتھ لایا۔ہر دور میںاور کچھ ہوا یا نہیں ملتان میں نئی عبادت گاہیں ضرورتعمیر ہوئیں ۔ پرانی عبادت گاہیں یا تو مسمار کر دی گئیں یاپھر” رواداری“کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں رہائش گاہوں یا اصطبلوں میں تبدیل کر دیا گیا۔
حملہ آوروں کے مذاہب ، ثقافتیں اور تہذیبیں
پہلا حملہ تو اس شہر پر جانے کس نے کیا تھا لیکن آخری حملہ ملتان پر برطانیہ نے کیا تھا۔اس حملے کے نتیجے میں بھی یہاں ایک نیا کلچر پروان چڑھا۔پورے برِ صغیر کی طرح ملتان میں ایک طرف تومغربی تہذیب رائج ہوئی اور اس کے ساتھ ساتھ بہت سے نئے نظام بھی متعارف کرادئے گئے۔نئے محکمے اور ادارے قائم کئے گئے ۔پھر ان اداروں کے لئے دفاتر کی تعمیر ہوئی تواہلِ ملتان کو ایک نیا فنِ تعمیر بھی دیکھنے کو ملا۔نئے کھانے اورنئے پہناوے متعارف ہوئے ۔دال مونگ اور دیگر روایتی کھانوں کے ساتھ ساتھ ڈبل روٹی، بسکٹ اور کیک پیسٹریاں بھی مارکیٹ میں آئیں۔حلوائیوں کی بہت سی دوکانیں بیکریوں میں تبدیل ہو گئیں۔پگڑی کی جگہ کیپ،دھوتی اور کرتے کی جگہ پینٹ شرٹ اور کوٹ ،دنداسے کی جگہ لپ سٹک اور ابٹن کی جگہ کریم متعارف ہوئی ۔شاید اسی زمانے میں اس شہر کے لوگوں نے پہلی بارایک اور بدیسی زبان انگریزی سنی ۔تعلیم عام ہوئی تو نوجوان پڑھ لکھ کر دفاتر میں ملازم ہوئے اور بابُو کہلائے ۔حتیٰ کہ شہر کے ایک علاقے کا نام ہی بابُو محلہ رکھ دیا گیا۔
( جاری )