پیمرا خود کو بہت طاقتور سمجھتی تھی ۔بڑے بڑے چینل اس کے آگے تھر تھرکانپتے تھے۔گرجنے برسنے والے بڑے بڑے اینکر ناک سے لکیریں کھینچتے تھے پیمرا کے آگے۔جب جی چاہتا تھا پیمرا کسی چینل کو بند کر دیتی تھی۔ جب جی میں آتا تھا کسی اینکر پر پابندی لگا دیتی تھی۔لوگ کہتے تھے کہ یہ اتھارٹی آمریت کی یاد تازہ کر رہی ہے۔کوئی چوں بھی نہیں کرتا تھا اس کے آگے۔لیکن ہر سیر کو کوئی سوا سیر بھی تو ہوتا ہے اور یہ کام ہمارے پیارے عامر لیاقت حسین نے کر دکھایا۔ لوگ انہیں ڈاکٹر کہتے تھے ،کچھ لوگ پیار سے حکیم بھی کہتے تھے کہ ان کی حکمت والی باتیں لوگوں کو بہت پسند آتی تھیں۔اب آپ کہیں گے کہ ہم نے پسند کا لفظ واوین کے بغیر کیوں تحریر کیا۔تو جناب حقیقت یہ ہے کہ واقعی ان کے چاہنے والوں کی بڑی تعداد تھی۔جب وہ مقدس دنوں پر ہچکیاں لے لے کر روتے تھے تو کمزور دل خواتین بھی ان کے ساتھ آنسو بہاتی تھیں اور جب وہ رمضان نشریات کے دوران افطاری کے وقت روزہ داروں کی دلجوئی کے لئے مسخرہ پن دکھاتے تھے تو تھکے ہارے روزہ داروں کی ساری تھکاوٹ دور ہو جاتی تھی۔پھر کسی ستم ظریف نے ان کی وہ ویڈیو لیک کر دی جس میں وہ پروگرام کے وقفے کے دوران علماءکے ساتھ فحش گوئی میں مصروف تھے۔چند روز میں یہ گرد بھی بیٹھ گئی۔وہ مختلف چینلوں اور پارٹیوں سے ہوتے ہوئے بالآخر حق گوئی کا پرچم تھامے بول چینل میں پہنچ گئے ۔بول میں آکر انہوں نے ان بہت سے اینکروں اور سیاستدانوں کا تمسخر اڑانا شروع کر دیا جن کے ساتھ ان کی معاصرانہ چشمک تھی یعنی جن کے ساتھ ریٹنگ کے معاملے میں ان کا مقابلہ رہتا تھا۔خیر ہمیں تو اس پر بھی اعتراض نہیں تھا کہ انہوں نے اسی بہانے بول چینل پر بیٹھ کر چوراہے میں بہت سے گندے کپڑے دھو ڈالے۔پھر یوں ہوا کہ گزشتہ دنوں بلاگرز کے مسئلے پر انہوں نے کھل کر اظہارخیال کیا ۔کسی پر قتل کا فتویٰ لگایا ،تو کسی کو کافر قرار دیا۔پیمرا کو پہلے تو جرات نہ ہوئی کہ وہ ان کی جانب آنکھ اٹھا کربھی دیکھتی۔پھر کچھ شرپسندوں نے پیمرا کو خطوط لکھنا شروع کر دیئے اور عامر لیاقت حسین کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ بھی درج کرا دیا گیا۔ مجبوراً بے چاری پیمرا کو ان پر پابندی عائد کرنا پڑی اور یہ احکامات جاری کیے گئے کہ عامر لیاقت حسین بول ٹی وی پر کوئی پروگرام نہیں کر سکیں گے۔نہ ہی ان کی آواز یا چہرہ بول چینل پر دکھایا جائے گا۔ جس روز یہ احکامات جاری ہوئے اسی رات عامر لیاقت حسین نے ان احکامات کی دھجیاں بکھیر دیں۔ وہ بول چینل پر نمودار ہوئے اور پیمرا کو چیلنج کیا کہ میں یہاں موجود ہوں آپ کی پابندیاں میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ایک آدھ شہر میں تو ان کا پروگرام بند کیا گیا لیکن باقی تمام شہروں میں عامر لیاقت حسین دکھائی بھی دیئے اور سنائی بھی دیئے۔ یوں پہلی مرتبہ بول کا بول بالا ہو گیا۔ سچ پوچھیں تو ہمیں آزادی اظہار پرپابندی کے خلاف ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کا یہ مجاہدانہ طرز عمل بہت پسند آیا ہے۔آپ انہیں ڈاکٹر کہیں یا حکیم ہم تو آج سے انہیں جنرل عامر لیاقت حسین ہی کہیں گے۔
فیس بک کمینٹ