کالملکھاریوسعت اللہ خان

ایہہ کی لڑائی ہوئی؟ وسعت اللہ خان

جمعرات کو قومی اسمبلی کے موسمِ سرما اجلاس کا آغاز ہی گرمی سے ہوا۔ جب بات پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی کی تقریر کرنے کی کوشش سے شروع ہوئی۔ پھر ان کے اردگرد تحریکِ انصاف کے چند ارکان نے جمع ہو کر جھوٹا جھوٹا چور چور کے نعرے لگانے شروع کردیے۔ ن لیگ کے ارکان سمجھے کہ یہ نعرے نواز شریف کے خلاف ہیں۔ چنانچہ انھوں نے بھی عمران خان کے خلاف جوابی کارروائی شروع کردی۔ سپیکر صاحب سوائے شانتی شانتی کے کچھ نہ کر پائے۔ کچھ کر پانے سے پہلے ہی فریقین کے پہلوان صف آرا ہوئے اور گالیوں کے بھالوں سے صفیں چیرتے ہوئے گھونسا لات شروع ہو گئی۔ حزبِ اختلاف کی جانب سے پی ٹی آئی کے جذباتی ارکان مراد سعید، شہر یار آفریدی، امجد علی خان اور ایک آزاد رکن جمشید دستی کی ٹیم نے مخالفین پر بڑھ چڑھ کے حملے کیے جبکہ سرکاری ٹیم کے کیپٹن شاہد خاقان عباسی کی معاونت میاں عبدالمنان، معین وٹو اور طارق فضل چوہدری نے کی۔ جن ارکان نے جسمانی داؤ پیچ آزمانے سے گریز کیا انھوں نے حلقوم سے فلک شگافی کی اور اپنی اپنی ٹیم کی فقروں، زیرِ لب گالیوں اور ہنگامی کوچنگ سے مدد کی۔ پیپلز پارٹی کے کچھ ارکان نے شروع میں تو بیچ بچاؤ کی کوشش کی مگر پھر وہ بھی تتر بتر ہو گئے۔ ریفری یعنی سپیکر صاحب نے اس پورے واقعے کی کچھ یوں مذمت کی کہ کوئی خفا بھی نہ ہو اور بات بھی رہ جائے۔ ’یہ بڑا افسوسناک واقعہ ہے جس کی اس ایوان کا کوئی بھی رکن حمایت نہیں کرے گا ۔یہ واقعہ ہم پر بوجھ ہے۔۔۔‘ حالانکہ دنگل سپیکر صاحب کی موجودگی میں ہوا پھر بھی انھوں نے واقعہ کی وڈیو طلب کر لی ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کیا کارروائی نہیں کریں گے۔ مزے کی بات ہے کہ جن صاحب یعنی شاہ محمود قریشی کے سبب سارا قضیہ شروع ہوا وہ ہنگامہ شروع ہوتے ہی پتلی گلی سے نکل لیے اور میڈیا کا فرنٹ سنبھال کر خوب گرجے برسے۔ کچھ سادہ ارکانِ اسمبلی اسے پاکستانی پارلیمانی تاریخ کا سیاہ ترین باب قرار دے رہے ہیں۔ اس سے کم از کم یہ تو پتہ چل گیا کہ کس کس نے تاریخ نہیں پڑھی۔ ورنہ انھیں 23 ستمبر 1958ء یاد آتا جب مشرقی پاکستان اسمبلی میں دھینگا مشتی کے دوران ایک کرسی ڈپٹی سپیکر شاہد علی پٹواری کے سر پر لگی اور دو روز بعد ان کا انتقال ہوگیا۔ ورنہ انھیں 1974ء کا وہ دن یاد آتا جب قومی اسمبلی سے حزبِ اختلاف کے کئی ارکان کو شور کرنے اور کسی طرح چپ نہ ہونے کے سبب سپیکر کے حکم پر سارجنٹ ایٹ آرمز اور اس کے محافظوں نے ڈنڈا ڈولی کرتے ہوئے اسمبلی کی کار پارکنگ میں لے جا کر زمین پر رکھ دیا۔
موجودہ اسمبلی میں ہی حکومتی بنچوں کی طرف سے خواجہ محمد آصف نے ’کچھ شرم ہوتی ہے، کچھ غیرت ہوتی ہے، کچھ حیا ہوتی ہے۔‘ جیسا تاریخی جملہ اچھالا جو سیاسی ضرب الامثال میں شامل ہو گیا۔ انہی خواجہ صاحب نے پی ٹی آئی کی شیریں مزاری کے بارے میں ایک جملہ بول کر خاصی ’داد‘ کمائی۔ بات یہ ہے کہ جب پاناما کیس صرف کمرہِ عدالت میں نہیں چلنے دیا جائے گا بلکہ عدالت کی سیڑھیوں پر بھی روزانہ چلے گا اور چور، ڈاکو، سب سے بڑا بدعنوان، جھوٹا مکار، یہودی لابی کا ایجنٹ، بدکردار جیسی اصطلاحات کو روزمرہ کی نارمل زبان میں بدل دیا جائے گا تو یہی لوگ اسمبلی میں بھی تو یہی گالیاتی خزانہ لے کر جائیں گے۔ وہاں پر بیٹھ کر بانگِ درا کی شرح تھوڑا بیان ہوگی۔ بلھے شاہ تھوڑی پڑھا جائے گا؟ پارلیمان میں دھول دھپا، جوڈو کراٹے اور باکسنگ کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ کوریا، تائیوان، یوکرین، بیلا روس، ترکی اور برازیل وغیرہ کے پارلیمانی ایوان میں تو اکثر فری فار آل ریسلنگ چیمپئن شپ کے کوالیفائنگ راؤنڈ منعقد ہوتے رہتے ہیں۔ روایت یہ ہے کہ جب لڑائی شروع ہوتی ہے تو قرار داد نہیں سر پھاڑا جاتا ہے، جوتا نہیں کرسی چلتی ہے ، چوڑیاں نہیں گردن ٹوٹتی ہے۔ بھارتی لوک سبھا میں بھی ہر برس دو برس بعد ایک آدھ جوتا ڈنڈا میچ دیکھنے میں آتا ہے۔ ایسی آخری لڑائی کے بعد لوک سبھا کے مائیکرو فونز ڈیسک میں کیلیں لگا کر ساکت کر دئیے گئے تاکہ کوئی اکھاڑ کے سر نہ پھاڑ سکے۔ آخر بندہ قانون سازی کرتے کرتے تھک بھی تو جاتا ہے۔ اب کیا کسی پر فرسٹریشن بھی نہ نکالے۔
ایسی دنیا میں پاکستانی پارلیمان میں ہونے والی لڑائیاں بچوں کا کھیل معلوم ہوتی ہیں۔ اور وہ قصہ یاد آجاتا ہے جب گاؤں میں اعوانوں اور آہیروں میں تین دن تک مورچہ بندی رہی، سینکڑوں گولیاں چلیں اور پھر صلح صفائی ہو گئی۔اس صلح صفائی پر علی بخش نائی نے تبصرہ کیا۔۔۔ تن دن بندوقاں چلیاں، دو ہزار فیر ہوئے، تے بندہ اک وی نہ گھٹ ہویا۔ ایہہ کی لڑائی ہوئی؟
(بشکریہ:بی بی سی اردو)

فیس بک کمینٹ

متعلقہ تحریریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker