دنیا میں مسلمانوں کے ایک نئے امیر المومنین کا ظہور ہونے والا ہے تاہم اب یہ کارنامہ پاکستان کی بجائے ترکی میں انجام دیا جائے گا، جہاں صدر رجب طیب اردگان کو ملک کا بااختیار صدر اور انتظامی و سیاسی امور میں مکمل اختیارات تفویض کرنے کے لئے آئینی ترامیم پر ریفرنڈم کروایا جائے گا۔ ترک پارلیمنٹ نے آئینی اصلاحات کا جو پیکیج منظور کیا ہے، اس کے تحت صدر اردگان اب ملک کے صدر رہنے کے علاوہ حکومت کے نگران اور حکمران پارٹی اے کے پی AKP کے سربراہ بھی ہوں گے۔ اس طرح ملک کے تمام سیاسی و قانونی اختیارات کو فرد واحد کے ہاتھ میں دے دیا جائے گا۔ ترک وزیراعظم بن علی یلدرم نے بتایا ہے کہ آئینی ترامیم کا مسودہ صدر اردگان کی منظوری کے لئے روانہ کر دیا گیا ہے۔ ان کے دستخط ہونے کے بعد مارچ کے آخر یا اپریل کے شروع میں ان تجاویز پر ملک میں ریفرنڈم کروایا جائے گا۔ اگر 50 فیصد سے زائد رائے دہندگان نے آئینی ترامیم کے حق میں فیصلہ کیا تو فوری طور پر انہیں نافذ کر دیا جائے گا۔ ملک میں پارلیمانی نظام کی بجائے صدارتی نظام نافذ ہو جائے گا اور اختیارات پارلیمنٹ کی بجائے ایوان صدر منتقل ہو جائیں گے۔ وزیراعظم کا عہدہ ختم ہو جائے گا اور صدر، نائب صدور کے ذریعے امور مملکت انجام دینا شروع کرے گا۔ اس طرح ترک پارلیمنٹ شاید دنیا کی واحد پارلیمنٹ ہوگی جو ایک ادارے کے اختیارات کو طشتری میں رکھ کر فرد واحد کی خدمت میں پیش کرے گی۔ صدر طیب اردگان 2011 سے ہی ملک میں صدارتی نظام متعارف کروانے اور خود ملک کا مطلق العنان حکمران بننے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ اس سال ہونے والے انتخابات کے دوران حکمران جسٹس ڈیویلپمنٹ پارٹی (AKP) نے یہ تجویز سامنے لانے کی کوشش کی تھی لیکن اسے زیادہ پذیرائی حاصل نہیں ہو سکی۔ 2014 میں طیب اردگان براہ راست انتخابات میں ملک کے صدر منتخب ہو گئے۔ اس طرح 2015 میں پارلیمنٹ کے انتخاب کے دوران اے کے پی نے صدر کے اختیارات میں اضافہ کے معاملہ کو اپنے ایجنڈے کا حصہ بنایا تھا۔ تاہم اس سال انتخابات کے پہلے راؤنڈ میں پارٹی کو مکمل اکثریت حاصل نہیں ہو سکی تھی۔ دوسرے راؤنڈ میں اکثریت تو حاصل ہو گئی لیکن صدر کے اختیارات میں اضافے اور پارلیمنٹ کی حیثیت کو ختم کرنے کا معاملہ سیاسی طور سے حمایت حاصل نہیں کر سکا۔ اگرچہ مبصرین کہتے ہیں کہ 2014 میں صدر بننے کے باوجود طیب اردگان عملی طور سے تمام اختیارات کے مالک ہیں۔ حتیٰ کہ انقرہ میں 500 ملین ڈالر کی مالیت سے تعمیر ہونے والا محل دراصل وزیراعظم ہاؤس کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا کیوں کہ اس وقت اردگان وزیراعظم تھے۔ البتہ 2014 میں صدر بننے کے بعد انہوں نے اسے صدارتی محل میں تبدیل کر کے خود اس میں رہنے کا فیصلہ کیا اور کوئی انکار کا لفظ زبان پر نہیں لا سکا۔ گزشتہ برس جولائی میں ناکام فوجی انقلاب کے بعد صدر اردگان کو جو سیاسی حمایت اور انتظامی اختیار حاصل ہوا ہے، اس کے بعد انہوں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک میں صدارتی نظام متعارف کروانے کے منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کی کوششوں کا آغاز کیا۔ اب پارلیمنٹ سے اس منصوبہ کی منظوری لے لی گئی ہے اور چند ہفتوں بعد عوامی ریفرنڈم میں اسے منظور کروانے کے لئے بھرپور مہم چلائی جائے گی۔ جولائی کے ناکام انقلاب کی ذمہ داری ملک کے جلاوطن مذہبی رہنما فتح اللہ گولن کی تحریک پر عائد کی جاتی ہے۔ ترک حکومت اس تنظیم سے وابستہ ارکان کو دہشت گرد قرار دے کر ان کے خلاف سخت کارروائیاں کر رہی ہے۔ گولن ان الزامات کی تردید کر چکے ہیں۔ حال ہی میں یورپین یونین کی خفیہ ایجنسیوں کی تیار کردہ ایک رپورٹ میں بھی ترک صدر اور حکومت کے اس دعویٰ کو مسترد کیا گیا ہے کہ جولائی کی بغاوت گولن تحریک سے وابستہ لوگوں نے منظم کی تھی۔ اس رپورٹ کے مطابق اس کام کا آغاز فوج کے بعض ناراض عناصر نے کیا تھا تاہم اسے مختلف حلقوں کی حمایت حاصل ہو گئی تھی۔ گولن تحریک کے بعض لوگ بھی ضرور ان میں شامل ہوں گے لیکن صدر طیب اردگان نے ملک میں اپنا سیاسی اختیار مسلط کرنے کے لئے اس منظم اور مقبول تحریک کو ختم کرنا ضروری سمجھا۔
اس طرح جولائی کی ناکام فوجی بغاوت کی آڑ میں گولن تحریک کے تمام تعلیمی اور فلاحی اداروں کو بند کر دیاگیا اور ہزاروں لوگوں کو گرفتارکیا گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق گزشتہ چھ ماہ کے دوران ایک لاکھ سے زائد سرکاری افسروں اور اہلکاروں کو برطرف کیا گیا ہے۔ ان میں ہزاروں فوجی بھی شامل ہیں۔ اس مرحلہ میں فوج کے کمانڈروں کے اختیارات کم کر کے فوج کو زیادہ سے زیادہ سویلین اختیار میں لانے کے لئے بھی اقدامات کئے گئے ہیں۔ اب ریفرنڈم میں صدارتی نظام کی منظوری کے بعد صدر اردگان کو تمام سویلین اور فوجی اداروں پر تسلط حاصل ہو جائے گا۔ صدر اردگان نے جولائی کی ناکام بغاوت کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صدارتی نظام کے لئے آئینی ترامیم کا پیکیج منظور کروایا ہے۔ اس طرح ریفرنڈم میں کامیابی کے بعد صدر اردگان آئینی طور پر ملک کے سب سے طاقتور اور بااختیار عہدیدار بن جائیں گے۔ بلکہ آئین میں صدر کے عہدہ پر فائز رہنے کی موجودہ مدت میں بھی توسیع کر دی گئی ہے۔ اس طرح عملی طور سے اردگان 2029 تک ملک کے صدر رہ سکیں گے۔ جن آئینی ترامیم پر ریفرنڈم منعقد ہوگا ان کے تحت ملک کا صدر صرف آئینی اور رسمی عہدہ نہیں رہےگا بلکہ اسے تمام انتظامی اور آئینی اختیارات حاصل ہوجائیں گے۔ وہ پارلیمنٹ کو توڑ سکے گا لیکن پارلیمنٹ کی طرف سے صدر کا مواخذہ کرنے کے اختیار کو محدود کر دیا گیا ہے۔ پارلیمنٹ اور صدر کے عہدہ کی مدت چار سال سے بڑھا کر 5 برس کر دی گئی ہے۔ تاہم آئندہ انتخاب 2019 میں ہی منعقد ہو گا۔ اب پارلیمنٹ کے 600 رکن ہوں گے اور 18 سال کا نوجوان بھی اسمبلی کا رکن منتخب ہونے کا اہل ہوگا۔ تمام اختیارات صدر کو منتقل ہو جانے کی وجہ سے پارلیمنٹ کی حیثیت محض ایک ڈیبیٹنگ فورم یا ربڑ سٹیمپ سے زیادہ نہیں ہو گی جو صدر کے ہر حکم اور خواہش کو بجا لانے پر آمادہ و تیار ہوگی۔ نئی آئینی ترامیم کے مطابق صدر کو غیر جانبدار رہنے یا پارٹی سیاست سے بالاتر ہونے کی ضرورت بھی نہیں ہوگی۔ بلکہ صدر اردگان صدر کے اختیارات کا مزہ لوٹنے کے ساتھ اپنی پارٹی کے سربراہ بھی رہ سکیں گے اور پارٹی معاملات میں بھی مطلق العنان ہوں گے۔ طاقت کا مرکز و محور صدر کی ذات ہوگی۔ وہ نائب صدور کے ذریعے امور حکومت چلائے گا۔ بجٹ تیار کرے گا۔ پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر کسی بھی شخص کو وزیر کا عہدہ تفویض کر سکے گا۔ سپریم کورٹ کے جج اور دیگر عدالتی اداروں کے عہدیدار مقرر کرنے میں بااختیار ہوگا۔ اور ضرورت پڑنے پر پارلیمنٹ توڑ کر ایمرجنسی نافذ کرکے ملک پر حکومت کرنے کا مجاز ہوگا۔ ناقدین اور مبصرین کا خیال ہے کہ ترکی میں صدارتی نظام کا جو ماڈل لایا جا رہا ہے وہ دنیا کے مروجہ صدارتی نظام کے طریقہ کار سے مختلف ہے۔ اس میں صدر کے اختیار پر کوئی کنٹرول نہیں ہوگا اور صدر کے لئے احتساب یا جوابدہی کا طریقہ کار نہایت ناقص اور کمزور ہو جائے گا۔ اس طرح یہ نظام عملی طور سے آمریت کو جنم دے گا۔ یہ اندازہ یوں بھی غلط نہیں ہے کہ صدر اردگان ترکی پر ایک مطلق العنان حکمران کے طور پر ہی اپنی مرضی مسلط کرتے ہوئے حکومت کرنا چاہتے ہیں۔ ان آئینی تبدیلی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ترکی کو دہشت گردی کی موجودہ صورت حال میں جن خطرات اور اندیشوں کا سامنا ہے، ان کی وجہ سے ایک مضبوط اور بااختیار صدر بہت ضروری ہے، جسے پارلیمنٹ کی اجازت کا انتظار کئے بغیر فیصلے کرنے اور انہیں نافذ کرنے کا اختیار حاصل ہو۔ یہ فیصلہ ملک کی سکیورٹی اور قومی مفادات کے تحفظ کے لئے ضروری ہے۔ تاہم ان ترامیم کے ناقدین فرد واحد میں تمام اختیارات کے ارتکاز کو جمہوری روایت کے لئے بدشگونی سمجھ رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرح ملک میں بنیادی حقوق اور آزادیاں متاثر ہوں گی اور ان کے خلاف چارہ جوئی کے امکانات بھی محدود ہو جائیں گے۔ ترکی کے صدر فی الوقت ملک پر اپنی مرضی نافذ کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ آئینی ترامیم کے ذریعے جو سہولتیں اور اختیارات حاصل کئے جا رہے ہیں وہ صرف طیب اردگان کی خواہشات اور ضرورتوں کو پیش نظر رکھ کر آئین کا حصہ بنائے جا رہے ہیں۔ اسی لئے اب صدر 5 برس کی تین مدتوں کے لئے ملک کا صدر منتخب ہو سکے گا۔ موجودہ صدر چوں کہ پہلی مرتبہ2014 میں منتخب ہوئے تھے، اس لئے وہ اب 2029 تک اس عہدہ پر فائز رہ سکتے ہیں۔ ترکی کو اسلامی دنیا میں صحت مند سیکولر جمہوری معاشرہ کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ معاشرہ میں جمہوری روایت بتدریج فروغ پا رہی تھیں اور موجودہ حکمران پارٹی نے 2003 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد آہستہ آہستہ سیاست میں فوج کے کردار کو محدود کیا تھا۔ اس طرح جمہوری لیڈروں کو اعتماد اور اختیار حاصل ہوا تھا۔ تاہم صدر اردگان نے گزشتہ چند برس میں جس طرح سیاسی جاہ پسندی کا مظاہرہ کیا ہے اور ملک پر اپنا مکمل اختیار نافذ کرنے کے لئے اقدامات کئے ہیں، ان کی وجہ سے ترکی میں جمہوری روایت اور نظام کے مستقبل کے بارے میں شکوک و شبہات جنم لیں گے۔ جولائی 2016 میں فوجی بغاوت کو ملک کے عوام نے ناکام بنایا تھا۔ ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں نے اس موقع پر حکمران جماعت کا ساتھ دیا تھا۔ لیکن صدر اردگان اگر اس جمہوری روایت کو کچلنے پر آمادہ ہیں جس کی وجہ سے وہ تمام اختیارات کے مالک بن سکے ہیں، تو وہ خود ہی اس آشیانے کو تباہ کرنے کا سبب بن سکتے ہیں جو پندرہ برس کی سخت سیاسی مشقت کے ذریعے بنایا گیا تھا۔ فوج کے اختیار محدود کرنے اور اسے سول کنٹرول میں لانے کے اقدام ضرور کئے گئے ہیں۔ لیکن اگر ملک میں فرد واحد ہی جمہوریت کے نام پر اختیارات کا مالک ہوگا تو فوج میں بھی بے چینی پیدا ہو سکتی ہے اور اس کے ملک کی سیاست اور مستقبل پر اثرات بھی مرتب ہوں گے۔
(بشکریہ:کاروان)
فیس بک کمینٹ