طفیل ابن گل(محمد طفیل) 1959ءمیں مشرقی پاکستان میں پیدا ہوئے۔ان کے والد فوج میں حوالدار تھے اور ملازمت کے دورا ن وہاں تعینات تھے۔1971ءکی جنگ میں طفیل کے والد شہید اور بڑے بھائی بلوے میں ہمیشہ کے لیے لاپتہ ہوگئے جس کے بعد طفیل اوران کے اہل خانہ پہلے بہاولپور آئے اور پھر کچھ عرصہ بعد لکڑ منڈی چوک ملتان کے نواح میں رہائش پذیر ہوگئے۔ان کا آخری پڑاﺅ ملتان میں خانیوال روڈ پر حسن آباد میں تھا۔طفیل ابن گل کا بچپن اور لڑکپن ملتان میں ہی گزرا۔وہ حرم گیٹ کے علاقے میں بشیروائیں کی دکان وائیں الیکٹرک شاپ پر سیلز مین کے طورپر کام کرتے تھے۔بشیر وائیں لکڑ منڈی میں ان کے پڑوسی تھے۔طفیل کو لکھنے پڑھنے کاشوق تھا لیکن وہ لکھنا نہیں جانتے تھے۔اس کے باوجود وہ 1980ء کے عشرے میں روزنامہ نوائے وقت ملتان میں ہفتہ وارکالم ’خبروں کے آئینے میں‘ لکھا کرتے تھے۔نامور محقق اورشاعر مسعود کاظمی نے اپنی کتاب ’دبستان ملتان‘ میں سینئرصحافی نصیر رعنا اور جبارمفتی کے حوالے سے لکھا ہے کہ طفیل ابن گل اپنا کالم کسی دوست کو ڈکٹیشن کے ذریعے لکھواتے تھے یعنی وہ بولتے جاتے اور ان کا دوست کالم لکھتا جاتاتھا۔1986ءمیں وہ ملتان کو خیر باد کہہ کر لاہور چلے گئے اور وہاں جمیل اطہر کے اخبار ’جرات‘ سے منسلک ہوگئے۔اسی دوران عبدالقادرحسن روزنامہ امروز کے ایڈیٹر بنے تو انہوں نے طفیل کو روزنامہ امروز میں پروف ریڈر بھرتی کر لیا۔یہاں بھی ان کا کالم ’خبروں کے آئینے میں‘ کے نام سے شائع ہوتا تھا۔انہوں نے روزنامہ امروز میں لائبریرین کی حیثیت سے بھی کام کیا۔1994ءمیں فیملی میگزین میں ان کا ناول ’قدسی‘ قسط وارشائع ہوتا تھا جس کا انہیں معاوضہ بھی ملتا تھا۔طفیل ابن گل بشارت کے قلمی نام سے دست شناسی کے موضوع پر بھی کالم لکھتے رہے۔ گیارہ اکتوبر 1994ء کو وہ ملتان میں حرکت قلب بند ہو جانے سے انتقال کر گئے۔طفیل کی دوسری برسی پر میں نے ایک خط کی صورت میں انہیں یادکیا تھا یہ خط ان کی 24ویں برسی پر آپ کی نذر ہے۔
طفیل بھائی ۔۔۔محبتیں !
آج دو سال بعد تمہیں خط لکھ رہا ہوں تو عجیب کیفیت کا شکار ہوں۔ایک وہ وقت تھا کہ ہر ماہ اور کبھی کبھار تو ہر ہفتے تمہارا خط ملتا تھا اور پھر میں تمہیں ایک طویل جواب تحریر کرتا تھا۔ ہم خطوں میں بھی اتنی تفصیل کے ساتھ مکالمہ کرتے تھے کہ یوں لگتا جیسے آمنے سامنے بیٹھے باتیں کر رہے ہیں۔ہر خط میں تمہارا اصرار ہوتا تھا کہ اگلا خط اس سے بھی زیادہ طویل ہونا چاہیے۔ہماری عجیب دوستی تھی ملاقات ہوتی تو اس میں بھی یہی خواہش ہوتی کہ یہ کبھی ختم نہ ہو اور ہم یونہی بیٹھے دنیا جہان کی باتیں کرتے رہیں۔تم لاہور سے ملتان آتے تو ہم رات بھر بیٹھک میں بیٹھے ایک دوسرے کو دل کاحال سناتے رہتے اور جب مجھے لاہور جانا ہوتا توہماری رات گوالمنڈی چوک میں مَلک کے ہوٹل پر گزر جاتی۔گھر آتے تو وہاں بیٹھے کھسر پھسر کرتے رہتے اور آخر بھابھی کو یہ طعنہ دینا پڑتا کہ تم مرد ہوکر بھی عورتوں سے زیادہ گفتگو کرتے ہو۔دو سال قبل 12 اکتوبر کی شب میں اسلام آباد سے ملتان واپس پہنچا تو خبر ملی کہ تم ہمیں ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر جا چکے ہو۔میں تمہارے جنازے میں بھی شریک نہ ہو سکا اور یہ بھی اچھا ہوا کہ میں نے تمہاری میت نہیں دیکھی۔چلتے پھرتے بھلے چنگے دوستوں کا جنازہ دیکھنا بھی نہیں چاہیے۔دوست کہتے ہیں کہ تم چارپائی پر یوں آنکھیں موندے لیٹے تھے کہ جیسے ابھی ایک ہی آواز پر اُٹھ بیٹھو گے اور اپنے مخصوص انداز میں سگریٹ سلگا کر اس کا دھواں فضا میں بکھیردوگے۔دوست یہ بھی بتا رہے تھے کہ ایک لڑکی بال بکھیرے پاگلوں کی طرح تمہاری میت پر رو رہی تھی، وہ کون تھی؟ اور اب کس حال میں ہے ؟کسی کو نہیں معلوم۔ایسی بہت سی کہانیاں تمہاری ذات کا حصہ تھیں۔کچھ کہانیاں تم نے دوستوں کوبھی سنائی تھیں اور کچھ اپنے سینے میں لے کر اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ایسے ہی ایک افسانے کو تم نے موت سے تین سال قبل حقیقت کا روپ دیا۔دوستوں کو بہت حیرت ہوئی تھی جب تم نے اچانک یہ خبر سنائی کہ تم نے ایک اور شادی کر لی ہے۔ہم جانتے تھے کہ تمہیں اولاد کی خواہش ہے تم اپنی اس محرومی کا اکثر ذکر بھی کرتے تھے۔دوسری شادی کے بعد تمہاری یہ خواہش بھی پوری ہو گئی۔جس روز بیٹا پیدا ہوا تم نے تمام دوستوں کو خط لکھے۔ایک خط مجھے بھی موصول ہوا جس میں تم نے بہت تفصیل کے ساتھ اپنے بیٹے ٹیپو کے قصے تحریر کیے تھے۔ہم بہت خوش تھے کہ طفیل ابنِ گل کے ہاں ابنِ طفیل پیدا ہو گیا ہے مگر قسمت کا کھیل دیکھو کہ بیٹے کی پیدائش کے ڈیڑھ سال بعد ہی تم اسے چھوڑکر چلے گئے۔اپنے والد اور بھائی کی موت کے بعد تم اپنے خاندان میں تنہا تھے۔دوستوں سے اپنے اکیلے پن کا ذکر بھی کیا کرتے تھے۔ کہتے تھے کہ ’یار میری بھی کیا زندگی ہے نہ میرا باپ زندہ ہے نہ کوئی بھائی۔‘لیکن یہ کیا ہوا کہ تم اپنی طرح اپنے بیٹے کو بھی تنہاچھوڑ گئے۔اب نہ اس کا باپ زندہ ہے اورنہ ہی اس کا کوئی بھائی ہے۔طفیل تم عجیب آدمی تھے۔بھر پور آوارگی کے ساتھ زندگی کا سفر شروع کیا اور آخر دم تک آوارگی جاری رکھی۔شادی سندھ میں کی، رہائش لاہور میں تھی، گھومتے پھرتے ملتان آئے اور ماں کی گود میں سر رکھ کر دم توڑ دیا۔آوارگی اسی پر ختم نہ ہوئی جنازہ ملتان میں پڑھا گیا اور دوست تمہاری میت کو ایمبولینس میں رکھ کر تدفین کے لئے گھوٹکی لے گئے۔انتہا تھی یہ تمہاری آوارگی کی۔اس سے زیادہ آوارگی ممکن نہ تھی ورنہ تم اس سے بھی گریز نہ کرتے۔مجھے لاہور کی وہ اُداس شام کبھی نہیں بھولے گی جب اپنی ایک دوست کی موت کے بعد میں رات بھر تمہارے ساتھ سڑکوں پر گھومتا رہا تھا۔ تم اور اطہر ناسک سائے کی طرح میرے ساتھ تھے۔مجھے دلاسہ دے رہے تھے۔تم مخصوص انداز میں سگریٹ سلگا کر زندگی اور موت کا فلسفہ بیان کرتے تھے اور میں نم آنکھوں کے ساتھ تمہارا چہرہ تکتا تھا۔تم نے اس روز کہا تھا ’رضو(تم مجھے رضی نہیں رضوکہتے تھے) حوصلہ کرو، مرنے والوں کے ساتھ مرا تو نہیں جاسکتا‘۔ اس روز تو میں تمہارے اس جملے کو معمول کا پُرسہ سمجھا تھا مگر گزشتہ دو برسوں سے یہی جملہ مسلسل میرے ذہن میں گونج رہا ہے اور میں سوچ رہا ہوں کہ ’کاش مرنے والوں کے ساتھ مر ا بھی جاسکتا‘۔میں تمہیں اس وقت سے جانتا ہوں جب تم ایک دکان پر سیلز مین تھے اور نوائے وقت ملتان میں ’خبروں کے آئینے میں‘ کے عنوان سے کالم لکھا کرتے تھے۔پھر معلوم ہوا کہ تم دکان چھوڑ کر لاہور آگئے ہو۔تم نے مختلف اخبارات میں ملازمت کی اور رفتہ رفتہ ’امروز‘ تک پہنچ گئے۔امروز میں جب تمہیں مستقل ملازمت ملی تو تم بہت خوش تھے۔معقول تنخواہ ملنے کے بعد تمہارے دن بدلنے لگے،لیکن خوشی اور آسائش کے یہ لمحات مختصر تھے۔ امروز بند ہوا تو بے روزگاری ایک بار پھر تمہارامقدر بن گئی لیکن تم نے ہمت نہ ہاری۔اچانک معلوم ہوا کہ تم ناول نگار بن گئے ہو۔ تم نے مختلف ناموں سے اخبارات اور جرائد میں سلسلہ وار کہانیاں لکھنا شروع کر دیں۔دیکھتے ہی دیکھتے تمہاری کہانیاں مقبول ہو گئیں اور تمہیں ان کہانیوں کا معقول معاوضہ ملنے لگا۔پھر دوستوں کے ہاتھوں کی لکیریں دیکھتے دیکھتے تم پامسٹ بن گئے۔بشارت کے نام سے اخبارات میں کالم لکھنے لگے۔اپنے مقدر سے بے خبر رہتے ہوئے لوگوں کو ان کی قسمت کا حال بتانے لگے۔دن ایک بار پھر بدلنے لگے، بے روزگاری ختم ہو گئی۔آخری مرتبہ تم ملتان آئے تو تم نے ریلیکس ہوٹل میں کمرہ لیا۔اخبار میں اشتہار شائع ہوا ’بشارت آپ کے شہر میں۔‘میں اور شاکر تمہیں ملنے گئے تم اچھے سگریٹ پی رہے تھے۔ حالات سے بہت مطمئن تھے۔میں نے واپسی پر شاکر سے کہا ’اب طفیل کے معاملات سیٹ ہو گئے ہیں۔‘مگرمجھے کیا خبر تھی کہ خوشی کے یہ لمحات بھی عارضی ہیں اور اس مرتبہ روزگار کے ساتھ ساتھ زندگی کی ڈور بھی ٹوٹنے والی ہے۔تمہیں تو شاید یاد نہ ہو مگر مجھے یاد ہے کہ ایک روز حیدر بلڈنگ کے قبر نما کمرے میں مَیں نے اطہر ناسک اور اختر شمار کی موجودگی میں تم سے کہا تھا کہ ’طفیل بھائی ہم چاروں دوستوں کا کوئی گروپ فوٹو نہیں ہے۔ آج ہم یہاں اکٹھے رہ رہے ہیں کل کو مقدرخدا جانے کہاں لے جائے کیوں نہ کسی روز ایک تصویر ہی بنوالیں۔‘تم چار پائی پر آلتی پالتی مار کر بیٹھے تھے۔تم نے قہقہہ لگایا اور بولے ’رضو! کیسی باتیں کرتے ہو۔تصویر کی کیا ضرورت ہے۔ہم چاروں تصویر سے زیادہ اہم ہیں اوریہاں موجود ہیں۔تصویر تو پھاڑ ی جا سکتی ہے، گم بھی ہو سکتی ہے۔‘میں نے تمہارے اس جملے کو معمول کا فلسفہ سمجھ کر نظر انداز کر دیا تھا مگر تمہاری موت کے بعد جب میں نے اپنی ڈائریاں اورالبم کھولے تو معلوم ہوا کہ میری تمہارے ساتھ کوئی تصویر ہی نہیں ہے۔بہت ظالم ہو دوستوں کے ساتھ کوئی یادگار تصویر تو بنوالیتے۔لیکن سنو اب میں نے تمہارے فلسفے کو نظر انداز کر دیا ہے۔میں اب اپنے ہر دوست کے ساتھ تصویر بنوا رہا ہوں میں نہیں چاہتا کہ میرے دوستوں کو بھی کل کلاں وہی دکھ ہوجو مجھے تمہاری موت کے بعد ہوا۔تمہاری بات اس حد تک تودرست تھی کہ تصویر پھاڑی بھی جاسکتی ہے، گم بھی ہو سکتی ہے مگر طفیل بھائی تصویر پھٹ جائے یا گم ہوجائے تو دوبارہ بھی بنوائی جا سکتی ہے۔اب تم کہو گے کہ میں خواہ مخواہ اور حسبِ عادت تمہاری بات کو رد کر رہا ہوں۔خیر تم بڑے بھائی ہو ڈانٹ بھی سکتے ہو۔خط کافی طویل ہوگیا ہے۔جانتا ہوں کہ تم اس کا جواب نہیں دو گے لیکن کیا کروں مجھے خط تو لکھنا ہی تھا۔تم اپنے دل کی باتیں نہ سنانا چاہو تو تمہاری مرضی میں نے تو دل کا بوجھ تمہارے سامنے ہی ہلکا کرنا ہے ناں۔
والسلام تمہارا رضو
9/ اکتوبر1996 ء
فیس بک کمینٹ