ہم تو سمجھے تھے کہ سینیٹ والوں کو شاید غیرت آگئی ہے جو انہوں نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ آئندہ پاکستان آنے والے امریکیوں کا استقبال نہیں کریں گے اور آئندہ سینیٹ کا کوئی رکن خود بھی واشنگٹن نہیں جائے گا۔ وہ تو جب ہم نے خبر پڑھی تو اصل حقیقت واضح ہو گئی اور ہماری ساری غلط فہمی دھری کی دھری رہ گئی۔ ہمیں اس بات پر دلی اطمینان ہوا کہ ہمارے اراکین سینیٹ کو حسبِ روایت بالکل غیرت نہیں آئی بلکہ انہوں نے جو ردعمل ظاہر کیا وہ امریکا کے نعرہء حیدری کا جواب ہے۔ اب آپ یہ سوچیں گے کہ امریکا نے نعرہء حیدری کب اور کہاں لگایا؟ تو جناب عرض یہ ہے کہ امریکا نے اس مرتبہ صرف نعرہء حیدری ہی نہیں لگایا بلکہ اس نے تو ہمارے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری پر تکبیر بھی پڑھ دی ہے۔ ہوا یوں کہ ایوان بالا کے ڈپٹی چیئرمین مولانا عبدالغفور حیدری ایک مباحثے میں شرکت کے لئے سینیٹر صلاح الدین ترمذی کے ہمراہ امریکا کے مقدس سفر پر روانہ ہونا چاہتے تھے۔مولانا عبدالغفور حیدری بھی اگرچہ مولانا فضل الرحمن ،مولانا سمیع الحق اور دیگر جید علماء اور اسلام کے سپاہیوں کی طرح امریکا کو مسلمانوں کا قاتل ہی سمجھتے ہیں لیکن اس کے باوجود کسی نہ کسی بہانے امریکا یاترا سے بھی نہیں چُوکتے ۔اس مرتبہ وہ ایک پارلیمانی مباحثے میں شرکت کے لئے امریکا جانا چاہتے تھے۔ اس مقصد کے لیے سینیٹر صلاح الدین ترمذی اور مولانا کے پاسپورٹ امریکی سفارت خانے بھیجے گئے۔پاسپورٹوں کی جانچ پڑتال ہوئی تو سفارتی عملے نے مولانا کو ویزہ دینے سے انکار کر دیا۔غالب امکان یہی ہے کہ یہ فیصلہ سفارتی عملے نے ان کاحلیہ مبارک دیکھ کر ہی کیا ہوگا۔ اس پر سینیٹ میں جو ردعمل سامنے آیا اور چیئرمین سینیٹ رضا ربانی اور دیگر اراکین نے انتہائی غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکا کو جو ”منہ توڑ“ جواب دیا اس کے چرچے آج کل میڈیا پر جاری ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے بعد جب سات اسلامی ممالک کے شہریوں کے امریکا داخلے پر پابندی عائد کی تھی تو خیال یہی تھا کہ اسلامی ممالک کی جانب سے اس پر شدید ردعمل سامنے آئے گا اور جواب میں اسلامی ممالک کے غیور حکمران امریکیوں کے خلاف بھی ایسی ہی پابندیاں عائد کریں گے یا اگر حکمرانوں کو غیرت نہ آئی تو غیرت ِ ایمانی سے سرشار ہمارے سرفروش عوام ہی سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ لیکن افسوس کہ غیرت جس چڑیا کانام ہے وہ اب اسلامی دنیا میں تو موجود ہی نہیں۔ اگر امریکا کے خلاف یہ ردعمل اس وقت سامنے آتا جب اس نے پابندیاں عائد کی تھیں اور پاکستان سمیت تمام اسلامی ممالک اس وقت یہ اعلان کر دیتے کہ جناب آپ اپنے ویزے اپنے پاس رکھیں ہم آپ کی سرزمین پرآنا ہی نہیں چاہتے، لیکن کیا کریں ہم جسے قاتل کہتے ہیں گھٹنوں کے بل گھسٹتے ہوئے اس کی چوکھٹ پر جاکر سجدہ ریز بھی تو ہوتے ہیں۔ اس کے گرین کارڈ کو اپنے سبز ہلالی پرچم پر ترجیح دیتے ہیں اور پھر بھی خود کو ”ہلالی“ سمجھتے ہیں۔ ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیں کہ نائن الیون کے بعد سے اب تک مسلمانوں پر کیا کیا مظالم نہ ہوئے لیکن ہمارے علماء، سیاست دان، فوجی ، شاعر، ادیب، صحافی ، دانشور، تاجر اور صنعت کاروں سمیت ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ دم ہلاتے ہوئے امریکا ضرور پہنچتے ہیں ۔اس عظیم ریاست میں نگری نگری گھومتے ہیں ۔ مطالعاتی دورے فرماتے ہیں ، تبلیغ کرتے ہیں ،مالیاتی اور دفاعی حکمت عملی وہیں تیارکرتے ہیں۔پراجیکٹ ڈیزائن کر کے خیرات میں ان سے ڈالر وصول کرتے ہیں، تبلیغ دین کے لئے وہاں مقیم تارکین وطن سے چندے لیتے ہیں اور پھر وطن واپس آ کر اسی امریکا کو قاتل بھی کہتے ہیں۔ صدشکر کہ امریکا نے نعرہء حیدری بلند کر کے ہمارے ایوان بالا کی غیرت کو تھوڑا سا جھنجوڑ دیا۔ وگرنہ تو ہم بحیثیت قوم منافقت کی اس معراج پر ہیں کہ اب ہمارے ہاں غیرت اور بے غیرتی کی تمیز ہی ختم ہو گئی، کہ بقول شاعر ” حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے “۔ جناب ہم سے تو وہ یہودی بہتر ہیں جنہوں نے ہم پر لگائی گئی پابندیوں کے خلاف تل ابیب اور دیگر مقامات پر مظاہرے کئے ۔
فیس بک کمینٹ