تپتی دھوپ اور جھلسادینے والی لو کے دوران ہمیں اپنے ایک دوست کی گفتگو بہت یادآتی ہے۔ہمارے اس دوست کاکہنا ہے کہ یہ گرمیوں کا موسم بھی بہت غلط وقت پرآتا ہے۔اتنے غلط وقت پر کہ ہم اس سے ٹھیک طرح سے لطف اندوز بھی نہیں ہوسکتے۔اگریہ موسم کبھی سردیوں میں آجائے تو بہت لطف آئے گا۔پھرہمیں گرمی نہیں لگے گی۔ پنکھے اور ایئرکنڈیشنربھی نہیں چلاناپڑیں گے اور واپڈا والوں کو دریاؤں میں پانی کے باوجود لوڈمینجمنٹ کے نام پر لوڈشیڈنگ بھی نہیں کرناپڑے گی۔خودہمارا بجلی کا بل بھی بہت کم آئے گا کیونکہ جب گرمیوں کا موسم سردیوں میں آئے گا تو ہیٹر بھی تو استعمال نہیں ہوں گے۔
ہمیں اپنے اس دوست کی یہ گفتگو خاصی احمقانہ محسوس ہوئی مگر مختلف دفاتر میں سالہا سال سے ملازمت کافائدہ یہ ہوا ہے کہ اس کے نتیجے میں ہمیں خاصی احمقانہ گفتگو پربھی تحسین کے انداز میں مسکرانے کا ڈھنگ آگیا ہے۔وگرنہ اس سے پہلے یہ ہوتاتھا کہ ہم ایسے مواقع پرطنزیہ انداز میں مسکرا کر خاصا نقصان اٹھایا کرتے تھے۔ اس دوست کی احمقانہ گفتگوپربھی ہم زیرلب مسکرا کر خاموش ہوگئے۔ہماری یہ زیر لب مسکراہٹ بھی انہیں ایسے ناگوار گزری جیسے حکمران جماعت کو جائز تنقید بھی بری لگتی ہے۔ ہمارے وہ دوست کہنے لگے،آپ ہماری اس گفتگو پر کیوں مسکرا رہے ہیں۔ہم نے کہا بھائی بات ہی مسکرانے کی ہے۔کوئی بھی ذی شعور آپ کی اس گفتگو پر مسکرائے بغیر نہیں رہ سکتا۔”اچھااچھا تو گویاآپ خود کوذی شعور ظاہر کرنے کے لئے ہماری اس علمی گفتگو کامذاق اڑا رہے ہیں۔ورنہ ہمیں تو یہ شک ہوگیاتھا کہ شاید ہم واقعی کوئی غلط بات کہہ بیٹھے ہیں“۔ لیجئے صاحب انہوں نے اطمینان کے ساتھ اپنی بے سروپا گفتگو کوبھی علمی قراردیدیا۔ہم انہیں کہنا چاہتے تھے کہ اگرہر شخص اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا شروع کردے اور اپنی حماقتوں پر اصرار کی روش ترک کردے تو سارے جھگڑے ہی ختم نہ ہوجائیں مگر ہم نے خاموش رہنا ہی مناسب سمجھا کہ فی زمانہ کسی کی غلطی کی نشاندہی بذات خود ایک غلطی تصور کیاجاتا ہے۔ ہماری اس خاموشی کو ہمارے اس دوست نے ہماری کم علمی سمجھ کر دوبارہ اپنی گفتگوشروع کردی۔کہنے لگے دیکھومیرے پاس گرمیوں سے نجات اور اس ملک کو ترقی کی راہ پر لے جانے کے بہت سے منصوبے ہیں۔ اگر تم میرا مذاق نہ اڑاؤ تو میں تمہیں بتاتا ہوں کہ جب یہ گرمیاں سردیوں میں آجائیں گی تو بہت سکون ہوجائے گایہ جو باربارلائٹ بند ہوجانے سے جی گھبرانے لگتاہے،باربارپیاس لگتی ہے اورکاروبار زندگی معطل ہوجاتا ہے یہ سب جھنجھٹ بھی ختم ہوجائیں گے۔
اب تو یہ عالم ہے کہ ادھربجلی بند ہوتی ہے ادھر جان نکلنے لگتی ہے۔بستر پر تنہا لیٹنا بھی عذاب ہوجاتا ہے اوریہ جو تم مسلسل میری گفتگوپر مسکرارہے ہوناں اگر ابھی لائٹ بند ہوجائے تو یہ تمہاری مسکراہٹ بھی ساتھ ہی نودو گیارہ ہوجائے گی اورمسکراہٹ تو کوئی لائن مین بھی بحال نہیں کرسکتا۔لیجئے صاحب۔ اب تو انہوں نے باقاعدہ ذاتی حملے شروع کردیئے تھے، مگر گفتگو ان کی اتنی دلچسپ تھی کہ ہم نے یہ انداز تخاطب بھی ویسے ہی برداشت کرلیاجیسے ہم بحیثیت قوم نریندرمودی کا توہین آمیز رویہ برداشت کرکے خود کو مہذب، امن پسند اور باوقارثابت کرتے ہیں۔موصوف نے گفتگو مسلسل جاری رکھی۔کہنے لگے لوڈشیڈنگ کابھی کوئی ٹائم نہیں واپڈاوالے جب جی میں آتا ہے بجلی بند کردیتے ہیں۔ اب ہم انہیں کیابتاتے کہ(سرکاری مؤقف کے مطابق)آج کل لوڈشیڈنگ اتنی زیادہ نہیں ہورہی لیکن ان کی گفتگوپر خاموش اس لئے رہے کہ وہ ترنگ میں بولے چلے جارہے تھے۔کہنے لگے اب یہی دیکھو کل لائٹ نہ ہونے کی وجہ سے میری بیگم کپڑے استری نہ کرسکی اور میں نوالے اپنے منہ میں نہ ڈال سکا۔”کیاآپ بجلی کی مدد سے نوالے منہ میں ڈالتے ہیں“ہم نے حیرت سے سوال کیا۔اب مسکراہٹ کی باری ان کی تھی۔
کہنے لگے بات وضاحت کے ساتھ کرناپڑے گی تم جیسے کم علم لوگ اشارے کنائے تو سمجھتے ہی نہیں۔دیکھومیاں کل ہم رات کاکھاناکھانے لگے تو لائٹ آف ہوگئی۔ہم نے کھانا تو خوب کھایا مگر پھربھی بھوکے ہی رہ گئے۔اندھیرے میں پتا ہی نہیں چلتا تھا کہ منہ کہا ں ہے۔ باتوں باتوں میں نوالے اپنے منہ کی بجائے بچوں کے منہ میں ڈالتے رہے اور وہ بھی ایسے ناخلف ہیں کہ چپ کر کے کھاتے رہے۔منہ سے یہ نہ پھوٹے کہ اباجی یہ آپ کانہیں ہمارا منہ ہے۔اسی لیے تو میں کہتا ہوں گرمیاں سردیوں میں ہی آنی چاہیئں۔گرمیاں جب سردیوں میں آئیں گی تو ایسے بہت سے مسائل سے نجات مل جائے گی۔سردیوں میں اگر لوڈشیڈنگ ہوئی بھی تو کم ازکم جی تو نہیں گھبرایاکرے گا۔اب ہمارے ضبط اوران کے خبط کی انتہاء ہوچکی تھی۔ہم نے کہاکہ حضور آپ کی تمام باتیں درست مگر کوئی طریقہ بھی توبتائیں کہ گرمیوں کو سردیوں کے موسم میں کیسے منتقل کیاجاسکتا ہے۔انہوں نے ترس کھاکرہماری جانب دیکھا اوربولے ہمیں معلوم تھا کہ تم ایسے ہی طفلانہ سوالات کروگے۔کیا عجیب زمانہ آ گیا ہے۔ایک تو تمہیں اتنی اعلی تجویز دی اور اب اس کاطریقہ کار بھی کیا میں ہی بتاؤں؟ ہمارے ترقی نہ کرنے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ہم ہرکام میں ہٹ دھرمی کامظاہرہ کرتے ہیں اورتمہیں ایک بات بتاؤں کہ
تیری جو ہٹ دھرمی ہے
اس کے پیچھے گرمی ہے
پھر گفتگو جاری رکھتے ہوئے فرمایا ”المیہ یہ ہے کہ کوئی بھی اپنا کام خود نہیں کرناچاہتا۔حکومت اگر چاہے تو گرمیوں کوسردیوں میں منتقل کرنا زیادہ مشکل نہیں ہوگا ”۔”تو پھرسردیوں کو ہم کہاں لے جائیں گے؟“
ہم نے ڈرتے ڈرتے سوال کیا۔انہوں نے کچھ دیرکے لئے سوچا پھر کہنے لگے ”انہیں سردیوں میں لے جانا“۔”بات تو پھروہیں کی وہیں آ جائے گی۔اتنے تردد کی آخر ضرورت ہی کیا ہے“۔ہمارے اس سوال پر انہوں نے مسکرانے کی بجائے باقاعدہ قہقہہ لگادیا۔کہنے لگے ”اس سارے تردد کا فائدہ یہ ہوگا کہ یکسانیت ختم ہوجائے گی۔زندگی میں کچھ تبدیلی آ جائے گی اور میں اپنے سردیوں والے سوٹ گرمیوں میں بھی استعمال کر سکوں گااور پھران لوگوں کے منہ بھی بند ہوجائیں گے جو کہتے ہیں کہ نئی حکومت بھی کوئی تبدیلی نہیں لا ئی“۔
(بشکریہ روزنامہ پاکستان )
فیس بک کمینٹ