کرونا کااگرچہ اب خاتمہ ہوچکا ہے لیکن گزشتہ دوبرسوں کے دوران اس وباءنے جہاں ہماری معیشت اور سماجی زندگی کوتباہ کیا وہیں اس نے ہم سے ایسی شخصیات بھی چھین لیں کہ جن کا دور دور تک کوئی نعم البدل دکھائی نہیں دیتا۔ ایسی ہی ایک شخصیت پروفیسرشوکت مغل کی تھی جو ماہر لسانیات بھی تھے، محقق، نقاد اور ماہرتعلیم بھی۔ان کی 50سے زیادہ کتابیں منظرعام پرآئیں جن میں سے دو پر انہیں اعزازات سے بھی نوازاگیا لیکن ان پربات کرنے سے پہلے سرائیکی کی قدامت اور رسم الخط پربات کرنا ضروری ہے ۔
سرائیکی بلا شبہ ایک قدیم زبان ہے لیکن اس کے رسم الخط پر بہت تاخیر کے ساتھ اتفاق رائے ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ سرائیکی زبان میں بعض موضوعات پرمطبوعہ کتب اس تعداد میں دستیاب نہیں جس تعداد میں دیگر قومی زبانوں میں موجود ہیں ۔رسم الخط طے ہونے کے بعد ضروری تھا کہ سرائیکی رسم الخط کے قواعد اور لغت پر سنجیدگی سے کام کیا جاتا۔سرائیکی لغت اور لسانیات پر جو کام بہت پہلے ہو جانا چاہئے تھا اس کی تکمیل کا بیڑہ پروفیسر شوکت مغل نے اٹھایا اور تنِ تنہا اتنابہت سا کام سر انجام دیا کہ جو اب تک زبان و ادب کے فروغ کے لئے کام کرنے والے ادارے بھی نہ کر پائے تھے ۔بلا شبہ سر ائیکی لغت اور لسانیت کے حوالے سے سرائیکی خطے میں سب سے زیا دہ کام پروفیسر شوکت مغل نے ہی کیاہے۔
سرائیکی تحقیق اور لسانیات کے موضوع پر ان کی 56 کتابیں منظر عام پر آئیں جن میں سے دو کتابوں کو اکادمی ادبیات کی جانب سے خواجہ فرید ایوارڈ بھی دیاگیا۔اس کے علاوہ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگویجزاینڈ کلچر(پلاک)کی جانب سے انہیں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے بھی نوازاگیا جو انہوں نے انتہاءپسندوں کی مخالفت کے باوجود وصول کیا۔ پروفیسر شوکت مغل نے ادبی سفر کا آغاز 1980 ءمیں اردو انشائیے سے کیا 1983 ءمیں انہوں نے سرائیکی میں کام شروع کیا اور پھر خودکو سرائیکی تحقیق و تنقید کے لیے وقف کر دیا۔ 1983 ءمیں ان کی پہلی کتاب منظر عام پر آئی تھی۔ان کی جن دوکتابوں کو اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے ایوارڈ سے بھی نوازاگیا ان میں ملتان دیاں واراں (خواجہ فرید ایوارڈ 1994 اور ” کوئے کنوا( خواجہ فرید ایوارڈ 2001 )شامل ہیں۔
شوکت مغل 4جون1947ءکو ملتان کے علاقے پاک گیٹ میں پیدا ہوئے۔ان کے والد کا نام حسین بخش تھا۔شوکت مغل نے میٹرک ملت ہائی سکول کچہری روڈ سے 1963ءمیں کی۔1965ءمیں گورنمنٹ بوسن روڈ سے ایف اے اور1967ءمیں اسی کالج سے گریجویشن کی۔علوم اسلامیہ میں ایم اے کاامتحان1969ءمیں پنجاب یونیورسٹی سے پاس کیا۔1971ءمیں ایم اے اردو کیا ۔اس سے قبل 1968ءمیں ہی وہ بی ایڈ کرنے کے بعد شعبہ تدریس سے منسلک ہوچکے تھے۔1975تک انہوںنے سکول میں پڑھایا جس کے بعد لیکچرار کے طورپر ان کی کالج میں تقرری ہوگئی۔1975سے 2007ءتک وہ کالج میں اردو پڑھاتے رہے اور ساتھ ساتھ تحقیقی کام بھی جاری رکھا ۔شعروادب کے ساتھ وابستگی کالج کے زمانے سے ہی تھی۔شوکت مغل نے زمانہ طالب علمی میں شاعری بھی کی ،افسانے ومضامین بھی تحریر کیے اورپھر ماں بولی کا قرض چکانے کے لئے خود کو سرائیکی تحقیق کےلئے وقف کردیا۔سرائیکی لغت ،سرائیکی لسانیات ،سرائیکی محاوروں اور ضرب المثل پر ان کی کتابیں خاص طورپر قابل ذکرہیں۔ان میں سے بیشتر موضوعات ایسے تھے کہ جن پر ماضی میں کوئی کام ہی نہ ہوا تھا اور مواد تک رسائی بھی نا ممکن دکھائی دیتی تھی ۔پروفیسر شوکت مغل نے انتہائی لگن کے ساتھ جستجو کا عمل جاری رکھا اور کامیابی نے ان کے قدم چومے ۔ان کی کتابوں میں ”ملتان کاسرسید،مرزا مسرت بیگ“،”قدیم اردو لغت اورسرائیکی زبان“،”سرائیکی قاعدہ“،”اردومیں سرائیکی زبان کے انمٹ نقوش“،”سرائیکی اکھان“(تین جلدیں)،”سرائیکی محاورے“(دوجلدیں)،”سرائیکی مصادر“(ایک جلد)،”سرائیکی زبان میں کنایہ اورقرینہ“،”قدیم سرائیکی اردولغت“،”شوکت اللغات“اور”اصلاحات پیشہ ورانہ“ قابل ذکر ہیں۔انہوںنے لغت کے حوالے سے مختلف کتابوں کے ترجمے بھی کیے۔سرائیکی سفرناموں میں” دلی ڈھائی کوہ“،”ملتان توں پٹیالے تئیں“ اور دیگر کتب میں ”الف بے بٹوہ“،”کنائی”،”افادات“اور”پچھیرا“ شامل ہیں۔ناقدین کے مطابق انہوںنے سرائیکی لسانیات کے حوالے سے وہ بنیادی کام کیا جو بہت پہلے ہوجانا چاہیے تھا۔ان کی تحقیق کی روشنی میں سرائیکی رسم الخط اورزبان کی نئی راہیں متعین ہوئیںاور بلا شبہ ان کی بیشتر کتب اب تحقیق کرنے والوں کے لئے حوالے کی کتابوں کا درجہ رکھتی ہیں۔سرائیکی ثقافت کے فروغ کے حوالے سے بھی پروفیسر شوکت مغل کی خدمات ناقابل فراموش ہےں۔انہوں نے اس خطے کی ثقافت کو اجاگر کرنے کےلئے مختلف میلوں اور تقریبات کاانعقاد بھی کیااور اس حوالے سے پورے خطے کے دورے بھی کیے۔وہ زبان و ادب کے فروغ کےلئے ملک بھر میں ہونے والی کانفرنسوں اورسیمینارز میں سرائیکی وسیب کی نمائندگی کرتے رہے خاص طورپر ظہوردھریجہ کے ہمراہ انہوں نے زبان کے فروغ کے لیے بھرپور کردارادا کیا۔
پروفیسر شوکت مغل کے ساتھ ہماری رفاقت کاسلسلہ اس زمانے میں قائم ہوا جب ہم 1980ءکے عشرے میں گورنمنٹ کالج سول لائنز ملتان کے طالب علم تھے۔1981 وہ سال ہے جب ہم گو رنمنٹ کالج سول لائنز میں پروفیسر انورجمال سے اردو پڑھتے تھے۔ یہی وہ زمانہ ہے جب ہم نے ادبی تقریبات میں آمد ورفت شروع کی تھی۔
آج پروفیسر شوکت مغل کو یاد کیاتو میں ایک مرتبہ پھر 1980ءکے عشرے میں پہنچ گیا۔شوکت مغل سے ہمارا تعلق اسی زمانے میں قائم ہو ا ۔1980-82میں شوکت مغل سول لائنزکالج ملتان میں اردوپڑھاتے تھے۔سول لائنز کالج کی راہداریاں ،کینٹین پر جابر علی سید، حسین سحر،مبارک مجوکہ، پروفیسر امین، عامرفہیم اور شوکت مغل کی بیٹھک نظروں میں گھوم گئی۔ میں یک دم رول نمبر257والا لڑکا بن گیا جو 1981ءمیں نان میڈیکل فرسٹ ایئر کا طالب علم تھا،جوپروفیسر انورجمال اور مبارک مجوکہ کے لیکچر تو بہت شو ق سے سنتا تھا لیکن کیمسٹری والے فیاض صاحب اور فزکس والے نجم الحسن صاحب کے پیریڈمیں رول نمبر155(شاکرحسین شاکر) کے ساتھ رفو چکر ہوجاتاتھا۔بسا اوقات ہم ایک دوسرے کی پراکسی بھی لگاتے تھے۔
پروفیسر حسین سحراورپروفیسرانور جمال کے ناتے ہماری بھی شوکت مغل سے شناسائی ہوئی ۔بعد کے دنوں میں مختلف تقریبات میں ہم نے انہیں ایک محبت کرنے والی ہستی کے طورپرجانا۔ وہ ہماری تخلیقات پردل کھول کرداد دیتے تھے اور جب میں نے وسیب ٹی وی پر کام شروع کیا تو سرائیکی زبان وادب کے حوالے سے رہنمائی حاصل کرنے کے لیے میں اکثر انہیں فون کرتا تھا۔اسی دوران ملتان میں ادبی بیٹھک کاقیام عمل میں آیا تو پروفیسر شوکت مغل اس بیٹھک کابھی مستقل حصہ بن گئے۔سرائیکی کتابوںکی تعارفی تقریبات ،شعراءکے ساتھ شامیں اور لسانی موضوعات پر مذاکرے پروفیسرشوکت مغل کی شرکت کے بغیر نامکمل ہوتے تھے۔ اس دوران ان کے ساتھ مختلف مکالمے بھی ہوئے۔ کبھی ادبی بیٹھک میں ،کبھی کسی ٹی وی پروگرام میں اورکبھی کسی اخبار کے لیے ۔ہمیں شوکت صاحب کو ان مکالموں کے ذریعے زیادہ سمجھنے کاموقع ملا۔ ہم انہیں صرف سرائیکی کا دانشور سمجھتے تھے لیکن انہوں نے بتایا کہ قلمی سفر کا آغاز تو انہوں نے اردو سے کیاتھا۔ایک انٹرویو میں انہوں نے تفصیل کے ساتھ سرائیکی ادب کے ساتھ وابستگی کی کہانی سنائی۔
انہوں نے بتایا کہ” میں نے شروع میں اردو لکھنا شروع کیا اردو کے مضامین اور انشائیے لکھتا رہا اس کے بعد میں سرائیکی کی طرف یوں آیا کہ جابر علی سید صاحب نے ایک روز مجھ سے پوچھا کہ آپ نے ایم اے اردو تو کر لیا ہے لیکن اب آپ کیا کر رہے ہیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ جب میں نے باغ و بہار کا مطالعہ کیا تو مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ اس میں ایسے بہت سے الفاظ نظر آتے ہیں جو سرائیکی زبان سے تعلق رکھتے ہیں۔ جابر علی سید نے مجھے کہا اگر آپ ایسا سمجھتے ہیں تو آپ اس حوالے سے کوئی مضمون لکھیں۔ لہذا میں نے اس حوالے سے ایک مضمون لکھا ”باغ و بہار کا مطالعہ لسانی حوالے سے “۔ جب یہ مضمون شائع ہوا تو اس کی بہت تعریف کی گئی کیونکہ اس مضمون میں اردو کا مطالعہ سرائیکی کے حوالے سے ایک نئے زاویے سے شروع کیاگیا تھا۔ ان کی ترغیب جاری رہی اور میں نے دوسرا مضمون لکھا جو امروز میں شائع ہوا ” نظیر اکبر آبادی کی غزل میں ایک سرائیکی شعر “ یہ مضمون دو قسطوں میں شائع ہوا۔ اسے بھی لوگوں نے بہت زیادہ پسند کیا۔ یوں مجھے رغبت حاصل ہوئی کہ میں دو زبانوں پر کام کروں اور اردو اور سرائیکی کے لسانی روابط کے بارے میں کچھ لکھوں اس طرح میرے سرائیکی کام کا آغاز ہوا۔
انہوں نے بتایا کہ جب میں نے دو زبانوں پر کام شروع کیا تو میں تحقیق کی طرف زیادہ راغب ہوتا گیا اور تخلیق سے دور ہوتا گیا۔ جب آپ دو زبانوں کو ملانے ، انہیں جوڑنے یا ا ن کے روابط پر کام کریں گے تو تحقیق کا پہلو غالب آئے گا اور تخلیق اس میں سے نکل جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ میں اردو اور سرائیکی کے روابط کی تلاش میں اردو سے الگ ہوا لیکن میرا اردو سے رابطہ منقطع نہیں ہوا۔ میرا کام دو زبانوں کے حوالے سے اردو میں بھی ساتھ ساتھ چلتا رہا ہے تاہم مثلاً میں نے تین عدد ”نور نامے“ مرتب کیے ۔ ان کا تعارف اور دیباچہ اردو میں لکھا گیا ۔
پروفیسرشوکت مغل کی زندگی کاایک پہلویہ ہے کہ ان کاپوراخاندان زرگری سے وابستہ ہے۔ شوکت مغل بھی اگرچہ چاہتے تو اسی پیشے سے منسلک ہوجاتے لیکن انہوں نے علم کی دولت کو اہمیت دی ۔تدریس سے وابستہ ہوئے اور خود کو ماں بولی کے لیے ایسے وقف کیا ،اس کی شان وشوکت میں اس طرح اضافہ کیا کہ ان کا نام سرائیکی تحقیق کے صفحات میں ہمشہ کے لیے سنہرے حروف سے رقم ہوگیا۔ شوکت مغل 3 جون 2020ءکو 73سال کی عمر میں ہم سے جدا ہوگئے۔ ۔
فیس بک کمینٹ