ثابت یہ ہوا کہ اگر خواب دیکھنے والے ہمت نہ ہاریں ،مایوسی کا شکارنہ ہوں اورثابت قدمی کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھیں تو کسی نہ کسی مرحلے پر کوئی خواب تعبیر پا ہی جاتا ہے۔اور بسا اوقات یہ اس وقت ہوتا ہے جب ہم مایوس ہوچکے ہوتے ہیں ۔ہم بھول چکے ہوتے ہیں کہ ہم نے کبھی کوئی خواب بھی دیکھا تھا۔لیکن خواب تو اپنا سفر جاری رکھتا ہے ۔تعبیر کی جانب بڑھتا رہتا ہے اور پھراسے کوئی ایک شخص ایسا مل جاتا ہے جو تعبیر کاوسیلہ بن جاتا ہے۔ملتان والوں نے اور سرائیکی وسیب کے باسیوں نے بہت سے خواب دیکھے۔کچھ تعبیر پا گئے اور کچھ خواب ایسے ہیں جن کا سفر ابھی جاری ہے ۔ملتان میں اکادمی ادبیات پاکستان کے علاقائی دفتر کا قیام کوئی ایسا خواب تو نہیں تھا کہ جس کی تعبیر کے لئے اس خطے کے ادیبوں،شاعروں اوردانشوروں کو ایک عشرے سے زیادہ کا انتظار کرنا پڑتا۔لیکن ایسا ہوا اوراس لئے ہوا کہ انہوں نے جو مطالبہ کیاتھاوہ کسی ایسے منصوبے کانہیں تھاجس کی تعمیر میں حکمرانوں کو کوئی فائدہ ہوتا۔کہیں کمیشن کھراکیاجاتا ،کہیں اپنوں کو نوازاجاتا ،کہیں حلقے کے لوگوں کو نوکریاں دی جاتیں ۔ اکادمی ادبیات پاکستان کادفترحکمرانوں کے لئے توکوئی اہمیت نہیں رکھتاتھا،یہ تو ادیبوں، شاعروں اوردانشوروں کا بے ضرر سا مطالبہ تھا اور جب انہیں ہی کوئی اہمیت نہیں دی جاتی توبھلاان کے مطالبے کی کیااہمیت تھی۔یہ مطالبہ پہلی بار 2004ء میں سامنے آیا جب ملتان میں سرائیکی علاقے سے تعلق رکھنے والے ادیبوں ،شاعروں کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی اس کانفرنس کااہتمام روزنامہ نوائے وقت نے کیاتھا اوراس میں شرکت کے لئے اس وقت کے گورنرپنجاب خالد مقبول اور اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین افتخارعارف بھی ملتان آئے تھے۔لاہور سے محترمہ بشریٰ رحمٰن اور اصغر ندیم سید نے بھی اس کانفرنس میں شرکت کی تھی۔کانفرنس کے اختتامی سیشن میں جب میزبان جبار مفتی کی جانب سے ایک قرارداد کے ذریعے اس دفترکے قیام کا مطالبہ کیا گیا تو گورنرخالد مقبول اور چیئرمین اکادمی افتخارعارف نے اعلان کیا کہ اس خطے کے قلمکاروں کے مسائل حل کرنے کے لئے یہ دفتر بہت جلد قائم کردیا جائے گا۔ابتدائی طورپر کاغذی کارر وائی بھی شروع ہوئی ، لیکن پھریہ سب کچھ سرخ فیتے کی نذر ہوگیا۔کئی سال بیت گئے ۔بہت سے لوگوں نے اس خواب کو فراموش بھی کردیا لیکن خواب دیکھنے والوں نے تعبیر کے لئے جدوجہد جاری رکھی۔یہی مطالبہ ملتانی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے بھی کیاگیا اور جب آصف زرداری سرائیکی صوبے کا جھنڈالے کرملتان آئے اور یہاں کے لوگوں کوانہوں نے الگ صوبے کے خواب دکھا ئے تو اس خطے کے ادیب یہ مطالبہ لے کر ان کے پاس بھی گئے تھے۔وعدے توہردورمیں ہوتے رہے مگر عملی صورت دکھائی نہ دی۔پھریوں ہوا کہ ملک رفیق رجوانہ گورنر کے منصب پر فائز ہوئے اور اسلام آباد میں اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین کی ذمہ داریاں ڈاکٹر قاسم بگھیو کے سپرد کردی گئیں۔سندھ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر قاسم بگھیو کی موجودگی میں یہ کام آسان ہوا اور اسے عملی صورت گورنر رفیق رجوانہ اور وزیراعظم کے مشیر عرفان صدیقی نے دی۔گزشتہ برس دفتر کے قیام کا اعلان ہوا اور پھر ریڈیو پاکستان ملتان کی عمارت میں یہ دفتر قائم بھی کردیاگیا لیکن اس کی تزئین وآرائش اوردفترکوفعال کرنے کے لئے اکادمی کے پاس فنڈزموجودنہیں تھے۔گورنررفیق رجوانہ نے یہ کام بھی مقامی صنعت کارذوالفقار چوہدری سے کرادیا۔گزشتہ ہفتے اس دفتر کا باضابطہ افتتاح ہواتواس میں خطے کے تمام قلمکاروں کو مدعوکیاگیا۔یہ خواب کی تعبیر کالمحہ تھا۔ریڈیو پاکستان ملتان کے سبزہ زار میں افتتاحی تقریب کے لئے پنڈال کو خوبصورتی کے ساتھ سجایاگیاتھا۔سٹیج پرگورنر پنجاب رفیق رجوانہ،وزیراعظم کے مشیر عرفان صدیقی ،اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر قاسم بگھیوکے ساتھ ملتان کے ادیبوں اوردانشوروں کی نمائندگی کے لئے نامور شاعر،ماہرتعلیم اوردانشور ڈاکٹر اسلم انصاری اور اکادمی ادبیات کے بورڈ آف گورنرز کے رکن ، معروف افسانہ نگار اوردانشور حفیظ خان اور ملتان آفس کی انتظامی کمیٹی کے اراکین شاکر حسین شاکر،خالد مسعود خان،ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ، اظہر سلیم مجوکہ اور ذوالفقارچوہدری بھی موجودتھے۔ڈائریکٹر جنرل ریڈیوپاکستان صبا محسن کی نمائندگی کے لئے کنٹرولر ہوم سروس فیاض بلوچ تقریب میں شرکت کے لئے خصوصی طورپرملتان آئے تھے۔شاکرشجاع آبادی ،پروفیسر شوکت مغل،ڈاکٹر محمد امین اور پروفیسر انور جمال سمیت خطے کے کم وبیش تمام اہم قلمکاراس تاریخی لمحے کاحصہ بننے کیلئے تقریب میں موجودتھے۔ڈاکٹر قاسم بگھیو نے ان تمام رکاوٹوں اور مشکلات کا ذکر کیا جو اس دفتر کے قیام کی راہ میں حائل تھیں اورجنہیں وزیراعظم کے مشیر عرفان صدیقی نے آسان بنادیا۔معروف مزاح نگاراورشاعر خالد مسعود خان نے مطالبہ کیا کہ اس خطے کے قلمکاروں کی تخلیقات کی اشاعت کااہتمام کیا جائے اور سرائیکی زبان وثقافت کی ترویج کے لئے ’’پلاک ‘‘کی طرز کا ایک ادارہ ملتان میں بھی قائم کیا جائے۔وزیراعظم کے مشیر برائے قومی تاریخ وادبی ورثہ عرفان صدیقی نے قلمکاروں کے لیے حکومت کی جانب سے فراہم کیے گئے خطیر فنڈ کا حوالہ دیااور بتایا کہ ان کی کوششوں سے ادیبوں کے انعامات اوروظائف کی تعداد اورمالیت میں بھی اضافہ کردیاگیا ہے۔ان کاکہنا تھا کہ ہم بہت سے کام کرتے رہتے ہیں علاقائی دفتر کا قیام بظاہر تو ایک معمولی سا قدم تھا لیکن یہاں ملتان آکر احساس ہوا کہ جیسے ہم سے کوئی بہت بڑا کارنامہ’’ سرزد‘‘ ہوگیا ہے۔انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ اس خطے کے ان ادیبوں کی تخلیقات سرکاری سطح پر شائع کی جائیں گی جو اب تک وسائل نہ ہونے کی وجہ سے اپنا کتابیں منظرعام پر نہیں لاسکے۔انہوں نے کہاکہ اس حوالے سے سینئر قلمکاروں پر مشتمل کمیٹی قائم کی جائے گی جو مسودوں کا انتخاب کرے گی اوراس کے بعد یہ مسودے سرکاری سطح پر شائع کیے جائیں گے۔بعض لوگوں کاکہناہے کہ اکادمی ادبیات کے علاقائی دفتر کاقیام کوئی ایسی غیرمعمولی بات نہیں کہ جس کااتناچرچا کیاگیا۔ان کاخیال ہے کہ لاہور ،کراچی اوراسلام آبادمیں اس سے بڑے بڑے ادارے موجود ہیں کیاہوا اگراس خطے کے ادیبوں کو اتنی تگ ودوکے بعد ایک چھوٹاسادفترفراہم کردیاگیا۔ اختلاف رائے سب کا حق ہے اور اس پر ہمیں اعتراض بھی نہیں ۔ بات صرف اتنی ہے کہ ہمارے خیال میں یہ دفترپہلاقدم ہے اس خواب کی تعبیر کی جانب جواس خطے کے عوام برسوں سے دیکھ رہے ہیں۔اکادمی ادبیات کے علاقائی دفتراس سے پہلے صرف آزاد کشمیر اورصوبائی دارالحکومتوں میں کام کررہے تھے ۔ملتان میں دفترکاقیام اس بات کا ثبوت ہے کہ سرکاری طورپراس خطے کی شناخت تسلیم کی جارہی ہے۔سرائیکی وسیب سے محرومیوں کے خلاف آوازیں برسوں سے سنائی دے رہی ہیں اوریہ شکوہ کیاجاتاہے کہ مرکزاورلاہور والے ہمیں ہماری شناخت سے محروم کررہے ہیں ۔اس خطے کی محرومیوں کو سب سے پہلے روزنامہ خبریں نے زبان دی اور اس خطے کے حقوق کے لئے آواز بلند کی۔ پھر یہ آواز ایک تحریک کی صورت اختیار کر گئی۔ اکادمی ادبیات کے اس دفترکے قیام کے بعد یقیناََاس محرومی کو ختم یاکم کرنے میں مددملے گی ۔جومحرومیاں اس خطے کے عوام کامقدرہیں کم وبیش انہی محرومیوں کاشکار یہاں کے قلمکاربھی ہیں ۔ہم تو اکادمی ادبیات کے اس دفترکوسرائیکی صوبے کے قیام کی جانب پہلابڑاقدم سمجھتے ہیں سوہم اس کاخیرمقدم بھی کرتے ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ روشنی اورامید کی جوکرن اس دفترکے قیام کے نتیجے میں نمودار ہوئی ہے اس کے نتیجے میں محرومیوں کے ازالے کاوہ سورج ضرور طلوع ہوگاجویہاں کے محکوم عوام برسوں سے دیکھ رہے ہیں ۔
(بشکریہ:روزنامہ خبریں)
فیس بک کمینٹ